pati

بلاگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے .بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ،

Monday 6 April 2020

شاہ ولی اللہ کی علمی و دینی خدمات

شاہ ولی اللہ ؒ کی علمی و دینی خدمات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی اور علمی خدمات کا دائرہ  کار بہت وسیع اور عالمگیر ہے۔ جس کا تعلق تعلیم و تدریس ، تصنیف و تالیف ، عقائد و اخلاق ،تہذیب و معاشرت ، احیائے دین اور اصلاح امت سبھی سے ہے ، مگر مجموعی طور پر  علمی و دینی خدمات کے دو پہلو بڑے نمایاں ہیں :
1.      تعلیم و تدریسجس کے ذریعے انہوں نے علماء کی جماعت تیار کی جنہوں نے ہندوستان اور اطراف میں اسلامی ترویج و اشاعت میں نمایاں خدمات سر انجام دیں
2.       تصنیف و تالیف کا  علمی میدان ہے۔ شاہ صاحب نے  علوم اسلامی کے ہر موضوع پر تصنیفی خدمات سرانجام دٰیں ہیں۔ آپ کے ان دونوں پہلؤوں پر تفصیل  درج ذیل ہے:
1 ۔ تعلیم و تدریس:
                شاہ  صاحب نے پندرہ سال کی عمر میں مروجہ تعلیم سے فراغت حاصل کر لی تھی،  اپنے والد محترم شیخ عبدالرحیم قدس سرہ کی وفات کے بعد  سترہ سال کی عمر میں ان  کے جانشین کی حیثیت سے  مدرسہ رحیمیہ میں مسند تدریس سنبھالی اور تقریبا بارہ سال تک تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول فقہ ، دینی اور عقلی علوم نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ پڑھاتے رہے۔ اس دوران اللہ تعالی نے ان کا سینہ حقائق قرآن و سنت ، اسرار شریعت اور مقاصد دین کو سمجھنے کے لئے کھول دیا تھا۔
بارہ سال تدریس فرمانے کے بعد  شاہ صاحب سفر حرمین شریفین کے لئے روانہ ہوئے۔1143 ھ کے آخر میں حج بیت اللہ کیا۔  حج ادا کرنے کے بعد مجاورات مکہ مکرمہ  میں رہے ، پھر زیارت مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہو گئے، پورا ایک سال  وہاں شیخ ابو طاہر محمد کردی اور دیگر مشائخ حرمین سے  روایت  حدیث کا شرف حاصل کیا۔ آپ حرمین شریفین  سے واپسی پر دہلی تشریف لائے اور اپنی مسند تدریس پر دوبارہ فائز ہوئے اور درس و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع  کردیا ،اوراپنی تمام  تر توجہ صرف علم حدیث کی تدریس پر مرکوز رکھی  کیونکہ قیام حجاز کے دوران وہاں کے اساتذہ حدیث کی صحبت کی وجہ سے آپ  پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افادیت و برتری کا تازہ  اثر لے کر آئے تھے۔ابتداء  میں ہر فن کی کتابیں خود پڑھاتے رہے، بعد ازاں  اپنی صلاحیتوں کو  تصنیف و تالیف ،ارشاد معارف گوئی اور قرآن و حدیث کی تدریس پر مرکوز رکھا اور دیگر علوم و فنون  کے لئے اپنے شاگردوں میں سے  ایک ایک شخص تیار کیا  اور متعلقہ فن کے طلباء  اس کے سپرد کردئیے۔
چنانچہ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ  اپنے والد کے اس معمول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"حضرت والد ماجد از ہر یک فن شخصے تیار کردہ بودند و طالب ہر فن بادے می سپرد دند و خود مشغول معارف گوئی و نویسی بودند و حدیث می خواندند"(1)
"حضرت والد ماجد نے ہر فن کےلئے  ایک شخص تیار کیا  اور متعلقہ فن کے طالب علم اس کے سپرد کر دئیے ، اور خود  معارف گوئی ، تصنیف و تالف اور درس حدیث میں مشغول ہوگئے "
سفر حرمین کے بعد شاہ صاحب  کی تدریس حدیث کی وجہ سے  مدرسہ رحیمیہ  نے باقاعدہ دارالحدیث کی شکل اختیار کر لی تھی۔اگرچہ آپ کے والد محترم نے بھی درس حدیث کا آغازکیا تھا مگر وہ جزوی طور پر تھا۔اب یہی مدرسہ دارالحدیث  کہلانے لگا تھا۔
پروفیسر غلام حسین  جلبانی  فرماتے ہیں:
" شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان میں ایک مستقل دارالحدیث کی بنیاد رکھی، جس کو آگے چل کر آپ کے لائق و فائق فرزند شاہ عبد العزیز نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔" (2)
شاہ صاحب سے قبل بھی محدثین کا ذکر ملتا ہے  مگر آپ کی یہ خصوصیت قابل ذکر ہے کہ آپ نے  درس حدیث میں  اختلافی مسائل کو اچھالنے کی بجائے ان پر غور و فکر کرکے  ان کے درمیان تطبیق کی کوشش فرماتے۔اس جدید اسلوب سے طلباء میں تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری اور تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا ہوتا۔
جلبانی صاحب مزید لکھتے ہیں :
" آپ کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ طلبہ سے خود ہی نیا سبق پڑھوایا کرتے تھے اور پھر  اس کے تمام پہلوؤں اور گوشوں پر نہایت جامع اور سیر حاصل بحث کیا کرتے تھے۔فقہی مسائل کو طلبہ کے سامنے پیش کرتے وقت آپ کی تمام تر توجہ اور کوشش اس امر کی جانب مرکوز  رہتی کہ بالعموم مختلف اور بالخصوص حنفی اور شافعی مسلک کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو حتی المقدور کم کیا جائے۔"(3)
شاہ صاحب کے درس و تدرس کا یہ سلسلہ جاری رہا، اشاعت حدیث  کے لئے  قائم  درس گاہ   "مدرسہ رحیمیہ"اس قدر مقبول ہوئی کہ دور دراز سے تشنگان علم، علم حدیث کے فیض سے مستفید ہونے کے لئے جوق در جوق اس کی طرف آنے لگے۔   چند ہی دنوں میں طلبہ کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مدرسہ رحیمہ کی جگہ کم پڑ گئی ، اس وقت کے مغل  بادشاہ  " محمد شاہ " نے اس مدرسہ کی وسعت کے لئے  شاہ جہاں آباد میں ایک  حویلی  دی جہاں درس و تدریس کا کام ہوتا تھا۔ یہ جگہ اپنے دور کی نہایت عالی شان اور خوبصورت  حویلی تھی ، جو بعد میںشاہ عبدالعزیز کے مدرسہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ (4)
     شاہ صاحب   کی انتھک کوششوں کی بدولت  علم حدیث نے اس قدر ترقی کی  کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی  کی تحریک حدیث کو گویا تقویت   اور جلا نصیب ہو گئی۔
بختیار حسن صدیقی لکھتے ہیں:
" انہوں ( شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ) نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی حدیث کی تعلیم کو عام کرنے کی کوششوں میں ایک نئی روح پھونکی ۔ مدرسہ رحیمیہ میں حدیث کے درس کا خصوصی اہتمام کیا اور ایسے علماء کی تربیت کی جنہوں نے ان کے بعد حدیث کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ درس نظامی میں حدیث کو اسلامی علوم میں صحیح جگہ مل گئی۔" (5)

مولوی رحیم بخش دہلوی  اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
" اس میں ذرا شک نہیں کہ جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی  بڑے پائے کے شخص تھے۔اس عہد میں سب سے زیادہ جس چیز نے آپ کو تمام دنیا میں مشہور کر دیا تھا،وہ آپ کے علمی کار نامے اور حدیث و تفسیر کا درس تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صفحات تواریخ کو آ ج تک آپ کے نام نامی سے زینت حاصل ہے۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ علم حدیث میں جس اولیت کا تمغہ اس زمانے کے مؤرخوں نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی  کے لئے تجویز کیا ہے اس کے مستحق  جناب مولانا شاہ ولی اللہ صاحب ہیں۔ کیونکہ علم حدیث کی عمارت کے بانی اگرچہ جناب شیخ عبدالحق محدث دہلوی تھے،لیکن جنہوں نے اس عمارت کا نقشہ تیار کیا اور پھر اشاعت و رواج کے مرقعوں سے اس کی در و دیوار کو سجایا  وہ شاہ ولی اللہ صاحب ہیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی ڈالی ہوئی بنیادیں آپ کی انتھک کوششوں سے بلند ہوئیں  اور اس عروج کو پہنچیں کہ تھوڑے دنوں میں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔اس بنا پر کہہ سکتا ہوں  کہ جناب شاہ ولی اللہ صاحب جیسا محدث ، مفسر، فقیہ  ہندوستان کو اپنی آغوش میں پالنا بہت کم نصیب ہوا ہو گا۔"  (6)
شاہ  صاحب کی تدریسی خدمات سے جو حضرات فیض یاب ہوئے  اور ہندوستان و اطراف میں علم دین کی  اشاعت  کے سلسلہ میں اپنی  خدمات سر انجام دیں، ان میں  آپ کے چاروں صاحب زادوں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ رفیع الدین، حضرت شاہ عبدالقادر  اور حضرت شاہ عبدالغنی کے علاوہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ، شاہ محمد عاشق پھلتی، خواجہ محمد امین ، علامہ سید مرتضیٰ بالگرامی  صاحب تاج العروس شرح قاموس ، مولانا رفیع الدین مرادآبادی وغیرہ ایسے اساطین علم ہیں  جنہوں نے پورے ہندوستان کو  قال اللہ اور قال الرسول ﷺ کے آوازہ سے پر شور بنایا۔
2 ۔ تصنیف و تالیف:
                درس و تدریس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تصنیف و تالیف کے ذریعے احیائے دین کا کام کیا۔ وہ عارف کامل، علوم شرعیہ کے ماہر،محقق اور میدان علم و عمل کے شہسوار تھے۔تصنیف و تالیف کے میدان میں انہوں نے علوم اسلامی کے ہر موضوع قرآن حدیث فقہ تصوف اور کلام وغیرہ پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ تصنیفی کی خدمات کے باب میں ان کا غیر معمولی کارنامہ یہ ہے کہ منطق اور فلسفے کی موشگافیوں حاشیوں پر حاشیے لکھنے کا جو رواج تھا  اس کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دی۔ شاہ صاحب نےتصنیف و تالیف کے ذریعے درج ذیل علمی میدانوں میں اپنی علمی و دینی خدمات  انجام دی ہیں۔
علوم قرآن کی اشاعت:
                شاہ صاحب کی علمی خدمات میں  عظیم کارنامہ عوامی سطح پر قرآن فہمی  کو عام کرنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت کی رائج علمی ، ادبی اور دفتری زبان فارسی میں " فتح الرحمٰن  " کے نام سے  قرآن پاک کا ترجمہ کیا۔ترجمہ قرآن کا یہ عظیم  کام انہوں نے محض علمی ذوق کی تسکین یا تصنیفی مشغلہ کے طورپر نہیں کیا  تھا، بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف  کتاب ہدایت کی ترویج و اشاعت اور عام  لوگوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنا تھا، تاکہ وہ فاسد خیالات ، غلط رسم و رواج  جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے  تھے اس کا ازالہ ہو سکے۔ شاہ صاحب نے اس فتح الرحمن کے مقدمہ میں  مسلمانوں کے جن ابترسماجی  حالات اوربے مقصد  روز مرہ  مشاغل کی نشاندہی کی ہے  ، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں تھا جس کی زندگی  فساد یا بگاڑ کا شکار نہ ہو۔عام طور پر قرآن و حدیث سے اعراض اور بے توجہی پائی جاتی تھی،  پڑھے لکھے لوگوں کی مجالس آرائی اور حلقہ بندیوں کا رواج عام تھا لیکن ان حلقوں میں صرف قصے کہانیوں ، صوفیاء کے ملفوظات ، مشہور فارسی شعراء کے اشعار اور حکماء  و فلاسفہ کے اقوال کا چرچاہوتا تھا۔
چنانچہ شاہ صاحب  فرماتے ہیں :
" چناں کہ یاران سعادت مند مثنوی مولانا جلال الدین ، گلستاں شیخ سعدی  و منطق الطیر شیخ فرید الدین عطار  و قصص فارابی  و نفحات مولانا عبد الرحمٰن و امثال آں نقل مجلس دارند، چہ باشد اگر ایں ترجمہ رابہماں اسلوب درمیان  آرند و حصہ از مشاغل خاطر بادراک آں گمارند۔گر آں شغل با کلام اولیآء است ایں بر شغل کلام اللہ واگر آں مواعظ حکیماں است مواعظ احکم الحاکمین است ۔"(7)

" جس طرح یہ لوگ  مثنوی جلال الدین  اور گلستاں شیخ سعدی ، یا منطق الطیر شیخ فرید الدین عطار ، یا فارابی کے قصے ، یا جامی کی نفحات  یا اس جیسی دیگر کتابوں کی مجلس لگاتے ہیں ۔ اس طرح اس ترجمہ کو بھی رواج دیں اور تھوڑی سی توجہ اس کے اوپر غور و فکر میں بھی صرف کریں۔ چونکہ اگر وہ کلام اولیاء سے شغف ہے تو یہ کلام اللہ کا شغف ہے، وہ اگر حکیموں کے مواعظ ہیں تو یہ احکم الحاکمین کے مواعظ ہیں۔" 
 اس وقت کےدینی مدارس میں علم صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کو عروج  حاصل تھا اور جو لوگ قرآن و حدیث کے داعی تھے ان کا موضوع بحث  بھی فقہ اور فتاوٰی ہی تھے۔عوام کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے دور رکھا جاتا تھا۔اس سلسلہ میں شاہ صاحب مقدمہ فتح الرحمٰن میں رقمطراز ہیں :
" اب تک قرآن کے مطالب سمجھنا صرف عربی تفاسیر پر منحصر تھا جسے علماء اپنا ہی حصہ سمجھتے تھے اور عوام کلام الٰہی کا منشاء اور فطرۃ اللہ کا مفہوم سمجھنے سے محروم اور بے نصیب تھے، بس طوطے کی طرح قرآن مجید پڑھا جاتا تھا۔"(8)
ایسے  حالات میں شاہ صاحب نے ضروری سمجھا کہ  سر چشمہ ہدایت ہونے کی حیثیت سے قرآن کریم کے مقام و مرتبہ و مقام کو واضح کیا جائے تاکہ لوگوں کے دل و دماغ  میں اس کی عظمت  و مقام  اور فیض یابی کی ضرورت و اہمیت  نقش  ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتب و رسائل میں  مختلف مقامات پر قرآن مجید کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کا خاص اہتمام فرمایا ہے، کہیں انہوں نے علم قرآن کو اعظم العلوم ، اجل العلوم  اور ابجل العلوم سے تعبیر کیا  ہے۔  (9)
ایک اور مقام پر آپ  یہ خیال ظاہر فرماتے ہیں:
" اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے سب سے بڑی نعمت  فہم قرآن ہے، اور یہ کہ اس کمترین امت پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بہت سے احسانات ہیں ان میں سے  عظیم احسان قرآن کی تبلیغ ہے اور وہ اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی تلقین قرن اول کو فرمائی درجہ بہ درجہ اس خاکسار کو بھی اس کی روایت و درایت سے حصہ ملا۔" (10)

شاہ صاحب اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں اس بات پر خاص توجہ دی کہ لوگوں کو  قرآن کے قریب لانے اور اس سے حصول رہنمائی کی ترغیب  و تشویق کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ترجمہ مروجہ زبان میں ہی کیا جائے۔ اس لئے انہوں نے قرآن مجید سے لوگوں کا تعلق مضبوط کرنے،  فہم قرآن   کو عام کرنے  اور براہ راست  استفادہ کی سہولت بہم پہنچانے  کے لئے   اپنے ترجمہ میں وہ زبان استعمال کی جو ان کے عہد میں عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی،شاہ صاحب کے فارسی ترجمہ کے پس منظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" الغرض شاہ صاحب نے سفر حجاز سے واپسی کے پانچ سال بعدیہ فیصلہ کہ ہدایت عالم،اصلاح عقائد اور اللہ تعالی سے طاقت ور رابطہ پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ قرآن مجید کی ہدایات کی براہ راست اشاعت و تبلیغ سے زیادہ مؤثر نہیں ہو سکتا اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ و اشاعت۔" (11)
شاہ صاحب نے جب یہ ترجمہ کیا تو اس وقت کے علماء بہت سیخ پا ہوئے ، آپ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا:
"میں ان طالب علموں سے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں  کہ اللہ کے بندو!
تم  یونانیوں کے علوم کے طلسم اور صرف ونحو کی دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہو؟ تم نے سمجھ لیا ہے کہ علم اسی کا نام ہے؟ حالانکہ علم تو قرآن مجید کی آیاتِ محکمہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی سنت ثابتہ کا  نام ہے۔" (12)

  گویا یہ ترجمہ بر صغیر میں عوامی سطح پر قرآن فہمی کو عام کرنے کی پہلی کاوش تھی۔ اس کی چند خصوصیات پر شاہ صاحب نے خود مقدمہ فتح الرحمن پر روشنی ڈالی ہے۔ترجمہ کے ساتھ ساتھ   اکثر مقامات پر فوائد بھی تحریر کئے گئے ہیں جو نہایت مختصر مگر  مشکل مسائل کی گرہ کشائی میں بے مثل ہیں۔  اس ترجمہ قرآن کی  سعی جمیلہ کا یہ فائدہ ہوا کہ عام لوگ قرآن خوانی کے مرحلہ سے نکل کر  فہم قرآن کے شعور سے  روشناس ہوئے۔لا دینی ، ضعیف الاعتقادی ،  فاسد خیالات ، غلط رسوم  و رواج  ، فسق و فجور  اور شرک و بدعات  جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے  تھے  ان کا خاتمہ ہوا۔ظلم و جہالت کی صورت حال میں کافی حد تک نہ صرف تبدیلی آئی بلکہ  قرآن  فہمی کی اشاعت کا رحجان بھی عام ہوااور درس قرآن کی مجالس کا انعقاد ہونے لگا۔ اس رحجان کے اثرات بعد کے ادوار میں بھی محسوس کئے گئے ہیں۔ہندوستان میں غالبا پہلی مرتبہ قرآن   فہمی کی جو  تحریک  شاہ صاحب نے چلائی تھی غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ  موجودہ  اردو زبان کے اکثر تراجم و تفاسیر میں  اس کے اثرات نمایاں طور پر موجود ہیں۔
حضرت  شاہ  صاحب  کی یہ سعی اللہ کے نزدیک اتنی مقبول ہوئی کہ پھر اور زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے اور آج دنیا کی کوئی قابل ذکر زبان ایسی نہیں ہے جس میں قرآن مجید کا ایک آدھ  ترجمہ  موجود نہ ہو۔اس کا عظیم الشان فائدہ یہ ہوا کہ گھر گھر قرآن مجید کے معانی و مطالب کا چرچا ہو گیا۔ عام مرد  و عورت ، بوڑھے اور جوان تک اس سے آشنا ہو گئے، اور انہیں اس کا یقین کامل ہوگیا کہ قرآن صرف بے سوچے سمجھے پڑھ لینے اور  پھر ایک  خوبصورت جزدان میں لپیٹ کر رکھ دینے اور اس طرح  اس کے ذریعہ برکت و ثواب حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے۔بلکہ قرآن اس لئے پڑھے کہ اسے سمجھ کر غور و فکر کے ساتھ  پڑھا جائے اور پھر اس کو زندگی کا حقیقی راہنما بناکر اس کے احکام و مسائل پر بھی عمل کیا جائے۔


مولانا عبد الماجد دریابادی لکھتے ہیں:
" ہندوستان میں قرآن فہمی کا چرچا آج جو کچھ نظر آرہا ہے ، اور یہ اردو، انگریزی اور دوسری زبانوں میں جو بیسیوں ترجمے شائع ہوچکے ہیں ، ہو رہے ہیں یا آئندہ شائع ہونگے ۔ ان سب کے اجر کا جزو اعظم یقینا حضرت شاہ صاحب کے حسنات میں لکھا جائے گا۔ یہ سارے چراغ اسی چراغ سے روشن ہوئے ہیں۔ اگر اس کی ابتدا  آپ اپنے ہاتھوں سے نہ کرتے تو نہ شاہ رفیع الدین کا اردو ترجمہ وجود میں آتا، نہ شاہ عبدالقادر کا، اور متاخرین کا تو ذکر ہی کیا۔جو شخص امت کے بے شمار نسلوں کے لئے اتنی بڑی رحمت کا دروازہ کھول گیا ، اس کے اجر بے حساب کا حساب  اور فرد بے نہایت کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے"۔ (13)
ڈپٹی نذیر احمد  صاحب جنہوں خود بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا۔ شاہ صاحب کی اس خدمت قرآنی کے بارے میں اپنے ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
"یہ بزرگ زمانے کے حالات پر کیسی وسیع نظر رکھتے تھے کہ 1150ھ باپ نے فارسی ترجمے کی ضرورت معلوم کی، پھر سو نہیں، دو سو نہیں،صرف پچیس برس کے بعد ان کے بیٹے شاہ عبدالقادر کو معلوم ہوا کہ عام مسلمان فارسی بھی کم سمجھتے ہیں۔انھوں نے اردو ترجمہ کیا جو موضح قرآن کے نام سے مشہور ہے۔ اور اردو کا بہتر سے بہتر ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فی الواقع اپنے وقت میں بہتر سے بہتر تھا بھی،جب ایک خاندان کے ایک چھوڑ، تین تین ترجمے لوگوں کو مل گئے،ایک فارسی مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کا،اور دو اردو،ایک شاہ عبدالقادر اور ایک شاہ رفیع الدین کا،تو اب ہر ایک کو  ترجمے کا حوصلہ ہو گیا۔مگر خاندان شاہ ولی اللہ کے سوا کوئی شخص مترجم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔وہ ہرگز قرآن کا مترجم نہیں، مولانا شاہ ولی اللہ اور ان کے بیٹوں کے ترجموں کا مترجم ہے کہ انہیں ترجموں میں کچھ رد و بدل اور تقدیم و تاخیر کر کے جدید ترجمہ کا نام دے دیا"۔ (14) انہیں ترجموں میں کچھ رد و بدل اور تقدیم و تاخیر کر کے جدید ترجمہ کا  دے دیا"۔
ترجمہ فتح الرحمن کے علاوہ علوم قرآن پر آپ کی درج   ذیل کتابیں ہیں:
1.     مقدمہ فتح الرحمن: فتح الرحمن  فی ترجمۃ القرآن یہ ترجمہ بر صغیر میں عوامی سطح پر قرآن فہمی کو عام کرنے کی پہلی کاوش تھی۔ اس کی چند خصوصیات پر شاہ صاحب نے خود مقدمہ فتح الرحمن پر روشنی ڈالی ہے۔ترجمہ کے ساتھ ساتھ   اکثر مقامات پر فوائد بھی تحریر کئے گئے ہیں جو نہایت مختصر مگر  مشکل مسائل کی گرہ کشائی میں بے مثل ہیں۔
2.      فوز الکبیر فی اصول التفسیر : یہ فارسی زبان میں اصول تفسیر پر انتہائی اہم ،  مختصر مگر جامع رسالہ ہے۔ جس میں شاہ صاحب نے فہم قرآن میں دشواریوں کے اسباب اور ان کا حل، قرآن مجید کے علوم خمسہ ، تاویل ، حروف  مقطعات  ، اصول ناسخ و منسوخ پر نہایت مفید اور بصیرت افروز  گفتگو کی ہے۔یہ مختصر اور جامع کتاب بڑی بڑی مجلدات سے بے نیاز کر دیتی ہے۔اس کے کئی اردو اور عربی تراجم ہو چکے ہیں، دینی مدارس اور جامعات کے تعلیمی نصاب میں  پڑھائی جاتی ہے۔
3.     فتح الخبیر بما لابد من حفظہ فی علم التفسیر : یہ  رسالہ عربی زبان میں  ہے، جس میں قرآن مجید کے مشکل و غریب لغات کو آسان انداز میں حل کیا گیا ہے۔ آیات قرآنی کی تمام ماثور تفاسیر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہیں جمع کی گئی ہیں۔ اس میں غریب القرآن   کے ساتھ ساتھ اسباب نزول پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
4.      تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیآء : یہ کتاب عربی زبان میں ہے، اس میں انبیآء کرام کے معجزات جو قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں وہ مذکور ہیں ، جنہیں عام طور پر خرق عادت تصور کیا جاتا ہے، ان کی تاویلات   و توجیہات  اور مخفی اسباب بیان  کئے گئے ہیں۔ شاہ صاحب نے ان  تمام معجزات کا مطابق فطرت ہونا ثابت  کیا ہے۔
علم حدیث کا احیاء:
                حدیث ،قرآن مجید کے بعد دوسری اہم اساس و بنیاد اور اسلامی فکر و قانون کا منبع و سر چشمہ ہے۔مذاہب عالم میں اسلام کو جو جامعیت ، وسعت، ہمہ گیری  اور انسانی وسائل کے احاطہ کی صلاحیت اور زندگی کے ہر گوشہ کے لئے راہنمائی اور رہبری کی قدرت اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کے لئے جو قانونی لچک حاصل ہے وہ در اصل حدیث ہی کے اس گرانقدر اور عظیم ذخیرہ کی بدولت ہے۔
                بر صغیر میں علم حدیث کا احیاء  شاہ صاحب کا دوسرا بڑا کارنامہ   ہے۔ علم حدیث کے سلسلہ میں جو خدمت انہوں نے انجام دی ہے ، اس پر برصغیر ہمیشہ آپ کا مرہون منت رہے گا۔ ان کے دور میں ہندوستان کے مدارس میں  حدیث کی تدریس کا رواج بہت کم تھا۔آپ بنیادی طور پر ایک عظیم محدث تھے ،اس لئے وہ جانتے تھے  کہ مسلمانوں کے لئے علم حدیث  سے آگاہی کس قدر اہم اور ضروری ہے۔چنانچہ 1732ء میں سفر حج سے واپسی کے بعد  انہوں نے خود کو علم حدیث کی تدریس و اشاعت کے لئے وقف کردیا اور باقی تمام عمر اسی میں گزار دی۔
شاہ صاحب  نے علم حدیث کو  تمام علوم کا معتمد علیہ سرمایہ، سرتاج اور دیگر دینی فنون کی اساس و بنیاد قرار دیا ہے۔(15)
ان کے نزدیک علم حدیث کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ   ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے  جو انہوں نے اپنی کتاب   " حجۃ اللہ البالغہ " میں  ذکر  فرمائے ہیں:
" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، افعال اور کسی عمل پر خاموشی ہمارے لئے نشان راہ ہے۔ جن کی روشنی میں ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہیں تو منزل تک پہنچنے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔اس راہ کے راہی کے لئے راہ راست سے بھٹک جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔جس نے آپ کی حدیث پر عمل کیا  یقینا اس نے راہ پالی ، اور جس نے منہ موڑا وہ گمراہ ہے۔اس پر عمل کرنے میں بڑی بھلائی ہے اور عمل نہ کرنے میں سخت  نقصان کا باعث ہے"۔(16)
علم حدیث پر آپ کی حسب ذیل  کتب لائق ذکر ہیں:
1.     المسویٰ من الموطا : یہ مؤطا امام مالک  کی عربی شرح ہے۔ اس میں شاہ صاحب نے  احادیث کو اپنے مزاج کے مطابق نئی ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب آپ کے اختیار کردہ  طریقہ درس حدیث کا نمونہ ہے ۔  شرح میں وہ اسلوب اختیار کیا ہے جو طالب علم کے لئے آسان اور دل نشین ہو۔حدیث سے مستنبط مسائل اور امام مالک دیگر آئمہ کرام کے مناسب تعقبات نہایت لطیف اشاروں میں بیان کئے ہیں۔
2.      المصفیٰ شرح مؤطا : یہ  مؤطا امام مالک کی فارسی شرح ہے۔ اس میں شاہ صاحب نے احادیث اور آثار کو الگ الگ کر دیا ہے۔ اقوال امام مالک  کو  مناسب طریقہ سے بیان کیا ہے اور ساتھ دیگر فقہاء کے اقوال بھی نقل کئے ہیں، اور احادیث  پر مجتہدانہ  انداز میں  بحث کی ہے۔
3.     شرح تراجم ابواب صحیح بخاری : یہ رسالہ عربی زبان میں ہے،جس  میں آپ نے امام بخاری کے قائم کردہ عنوانات ابواب کی تشریح اور توجیہ اس طرح بیان کی ہے کہ ان کے ذیل میں دی ہوئی احادیث سے ابواب کی مناسبت  صحیح طور پر سمجھ آجاتی ہے اور کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
4.      حجۃ اللہ البالغۃ : یہ  شاہ صاحب کی نہایت  معرکۃ الاراء عربی تصنیف ہے۔ اس میں آپ نے  تعلیمات اسلام کو  فطرت اور احکام دینی  کو مبنی بر عدل ثابت کیا ہے۔ہر حکم الہی اور امر شریعت کے اسرار اور مصالح  نہایت بلیغ اور مدلل انداز میں  بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ  اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ  اسلامی تعلیمات کو عقل اور علم جدید کے جس میزان پر پرکھنے کا رحجان بیسویں صدی میں شروع ہوا،اس پر عملی کام  شاہ صاحب  اپنی اس کتاب میں اٹھارہویں  صدی میں کر چکے تھے جب کہ ابھی عقلیت کے رحجان کے کوئی آثار نظر نہ آتے تھے۔اس کتاب کے پہلے حصہ کی ساتویں بحث میں ،طبقات کتب حدیث ،حدیث کو سمجھنے کے طریقے ، مختلف احادیث میں تطبیق وغیرہ  پر محققانہ  بحث  موجود ہے۔
5.     الارشاد الیٰ مہمات الاسناد: یہ رسالہ عربی میں ہے۔ جس میں شاہ صاحب نے  اپنے اساتذہ اور شیوخ حجاز کا ذکر کیا ہے اور ان کی سند حدیث پر گفتگو کی ہے۔
6.     الاربعین:  یہ چالیس احادیث  کا مجموعہ ہے ۔، جسے شاہ صاحب نے عوام میں حدیث کا ذوق  پیدا کرنے کے لئے مرتب فرمایا تھا۔
7.     الفضل المبین فی المسلسل من حدیث النبی الامین:عربی میں یہ رسالہ اس نوع حدیث پر لکھا گیا ہے ، جو مسلسلات کے نام سے مشہور ہیں۔
فقہ اور اصول فقہ:
            فقہ کے میدان میں بھی شاہ صاحب  علمی اور دینی خدمت قابل قدر اور بے مثال ہے۔ ہندوستان  ابتداء ہی سے فقہ حنفی کا مرکز تھا، بلکہ  اس فقہ کو مسلم حکومت کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے۔ کیونکہ ہندوستان  کے سلاطین کا سرکاری مذہب حنفی تھا۔ وہ جید علماء فقہ کی مجالس میں پیش آمدہ مسائل پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔مثلا بیت المال کے معاملات ، بد عنوان حاکموں کی سزاؤں کے قوانین، بیت المال میں سلطان کے حصے اور اسلامی حکومت میں ہندوستان کی قانونی حیثیت کے بارے میں بحث وغیرہ ہوتی تھی۔میدان فقہ میں سب سے گراں قدر خدمت " فتاویٰ عالمگیری" کی تالیف بھی اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں انجام دی گئی۔تاہم  فقہ حنفی کے علاوہ دیگر مذاہب فقہ کے لوگ بھی موجود تھے۔(17)
شاہ صاحب کی تعلیم و تربیت بھی  حنفی ماحول میں ہوئی، اور خاندانی طور پر وہ فقہ حنفی سے ہی وابستہ تھے۔ فتاوٰی عالمگیر کی تدوین میں ان کے والد گرامی شاہ  عبدالرحیم بھی  فقہاء کی مجلس میں کچھ عرصہ تک  شامل رہے تھے۔والد صاحب کی وفات کے بعد  دوران تدریس اور قیام حجاز کے ایام میں انہیں حنفی مسلک کے علاوہ  دوسرے مسالک کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس کی بنا پر  ان کی نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ اگرچہ خود فقہ حنفی کے پیروکار تھے مگر ان کی نظر میں دوسرے مکاتب فقہ یکساں اہمیت کے حامل تھے۔
شاہ صاحب کا دور فقہی رحجانات کے حوالے سے  جمود، تعصب  اور  تنگ نظری کا دور تھا۔ایک فقہی مسلک کے  لوگ دوسرے فقہ کے پیروکاروں کو  برداشت کرنے کے لئے بالکل تیار نہ تھے۔مدارس عربیہ میں بھی فقہ کا عنصر اس قدر غالب تھا کی گویا  شریعت کے بنیادی ماخذ قرآن و سنت کی  ثانوی حیثیت تھی۔اس حوالے سے مولانا اختر امام عادل  لکھتے ہیں:
"شاہ صاحب کے دور میں جو جمود ، تعصب ، تنگ نظری اور غالی تصورات  پیدا ہوگئے تھے، ان کی بناء پر دیگر مذاہب کے مطالعہ و تحقیق بلکہ احترام کی روایت بھی اٹھتی جا رہی تھی ….شاہ صاحب نے محسوس کیا کہ اس جمود اور تنگ نظری کا سبب  مطالعہ ع تحقیق اور وسعت نظری کی کمی ہے۔اگر اہل علم تمام مذاہب فقیہہ کا منصفانہ مطالعہ کریں ، اور ان کے بنیادی ماخذ تک پہنچنے  کی کوشش کریں تو مذاہب کے درمیان اس درجہ تفریق و امتیاز کا جو احساس پایا جاتا ہے اس میں کمی آجائے گی ، اور اسلاف  باہم فکری و نظری اختلافات  کے باوجود جس رواداری اور اکرام و احترام کا مظاہرہ فرماتے تھے وہ دوبارہ قائم ہو"۔ (18)
شاہ صاحب کے دور میں ایک طبقہ تو ایسا تھا جو اجتہاد سے گریزاں تھا اور اسے ناجائز قرار دیتا تھا اور تقلید جامد پر مصر تھا، اور فقہی جزئیات کو نصوص  کتاب و سنت کا درجہ دے رکھا تھا۔اس کے بر عکس دوسرا طبقہ  تقلید کو ممنوع قرار دے رہا تھا۔آپ ؒ نے اجتہاد و تقلید کے اس باب میں اعتدال کی راہ دکھائی اور ان کے  دائرہ کار اور حدود کو متعین کیا، اور اس حقیقت  کو واضح کیا کہ اجتہاد  ممنوع نہیں  بلکہ اس کا سلسلہ قیامت تک رہے گا۔ہر دور میں ایسے باصلاحیت افراد ہیدا ہونگے جو اجتہادی عمل کو جاری  رکھے گے۔ لیکن اجتہاد  ہر کس و ناکس کا کام نہیں اس کے لئے کچھ شرائط  ضروری ہوتی ہیں۔اس طرح آپ نے تقلید کو انسان کی فطری ضرورت قرار دیا کہ جن لوگوں میں اجتہاد کی مطلوبہ صلاحیت موجود نہیں ، ان کے لئے تقلید کے سوا کوئی چارہ نہیں۔علمائ پر زور دیا کہ جزئیات و مسائل کا صرف مطالعہ کرنے کی بجائے کتاب و سنت کے ساتھ  ان کا ربط  اور موازنہ  کرتے  رہنا چاہئے۔ حدیث کی روشنی میں مسالک اربعہ کے درمیان تطبیق و توفیق کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے۔
شاہ صاحب کے نزدیک چاروں فقہی مسالک برابر ہیں ، اور ہر ایک کی  اپنی خصوصیت ہے ۔ ان کے فقہی اختلافات دلائل پر مبنی ہیں۔ بیشتر اختلافات محض اولیٰ اور راجح کی تعیین کے ہیں۔انہوں نے  مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ  مسائل  میں  ان علماء محدثین کی  پیروی کریں جو فقہ و حدیث کے جامع ہوں ۔
اس موضوع پر شاہ صاحب نے درج ذیل  رسالے مرتب فرمائے ہیں:
1.     عقد الجید فی بیان احکام الاجتہاد والتقلید: اس عربی رسالہ میں آپ نے اجتہاد اور تقلید کے مسئلہ پر  نہایت محققانہ اور منصفانہ بحث کی ہے۔علمی انداز میں دلائل کے ساتھ اجتہاد و تقلید کے بارے اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔
2.      الانصاف فی بیان سبب الاختلاف: اس رسالہ میں  آپ نے احکام شرعیہ کے متعلق صحابہ کرام، تابعین ، آئمہ مجتہدین کے باہمی اختلافات کے اسباب اور اس کی تاریخ بیان کی ہے، اور ہر گروہ کی  افراط و تفریط پر تنقید کی ہے۔
3.     رسالہ در مذہب فاروق اعظم: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے اجتہادات اور فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ اس رسالہ میں  انہوں نے کتاب الخراج قاضی ابویوسف ،کتاب الام امام شافعی ،سنن دارمی،  صحیحین ،سنن و جوامع  صحاح ستہ سے  اجتہادات حضرت عمر  جمع کئے ہیں
اس کے علاوہ انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ اور  اپنی دیگر تصنیفات میں بھی فقہی ابحاث درج کی ہیں۔
علم تصوف کی اصلاح :
تصوف ان کیفیات کا علم ہے ، جن کے ذریعے نفس کاتزکیہ ، اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے،تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کر سکے۔اس سے تعلق  باللہ قائم کرنے،آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے،  اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے، اخلاق رذیلہ کو  ترک کرنے،ظاہر و باطن کی اصلاح اور ہر معاملہ میں رضائے الٰہی کی طلب اور اس پر راضی رہنے کا درس ملتا ہے۔
شاہ صاحب  نے تصوف کے میدان میں بھی  خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے  اپنی کتابوں میں تصوف اور احسان کے بارے قدرے وسعت سے لکھا ہے۔اپنی شہرہ آفاق کتاب " حجۃ اللہ البالغہ " جو انہوں نے شریعت کے اسرار  و حکم ، مقاصد و اغراض ، احادیث کی توضیح میں لکھی ہے ، اس کی دوسرے حصہ میں ارکان اسلام مثلا نماز ، روزہ،حج، زکٰوۃ وغیرہ کی حقیقت اور بھر پور حکمت تشریع بیان کرنے کے بعد "مبحث فی ابواب من الاحسان " کے تحت انہوں نے تصوف کے مسائل کا بھر پور احاطہ کیا ہے۔شاہ صاحب  جمہور صوفیا کی طرح طریقت کو شریعت کے تابع سمجھتے ہیں۔احکام الٰہی کی بجا آوری کے نتیجے میں باطنی کیفیات و نتائج کو " احسان" کا نام دیتے ہیں۔
شاہ صاحب کا دور جاہل صوفیا اور علماء سو ء سے خالی نہ تھا۔ایک طرف علماء نے منطق و فلسفہ کی لا یعنی ابحاث کو علمیت کا معیار قرار دیا ہوا تھا ، تو دوسری طرف صوفیاء نے کرامات و شعبدہ بازی کو  تصوف کی معراج سمجھ رکھا تھا۔یہ دونوں طبقے دین کے نام پر دنیا پرستی کے فروغ میں پیش پیش تھے۔شاہ صاحب نے ان دونوں طبقوں پر  ان کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے کڑی تنقید کی ہے۔اپنی کتاب " التفہیمات الٰہیہ" میں غلط کار علماء اور نام نہاد صوفیاء اور بے علم مشائخ  کی اولادوں کو تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی کوتاہیوں اور غلط روش پر متنبہ کیا ہے۔چنانچہ  "التفہیمات الالٰہیہ " میں  پیر زادوں  سے فرماتے ہیں:
" اے وہ لوگو! جو اپنے آباء کے رسوم کو بغیر کسی حق کے پکڑے ہوئے ہو، میرا آپ سے سوال ہے کہ آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے  کہ ٹکڑوں، ٹولیوں میں بٹ گئے ہو، ہر ایک اپنے اپنے راگ اپنی منڈلی میں الاپ رہا ہے۔ جس طریقے کو اللہ تعالیٰ نے  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا تھا اور اپنے لطف و کرم سے جس راہ کی طرف  راہنمائی فرمائی تھی ، اسے چھوڑ کر  ہر ایک مستقل پیشواء بن گیا ہے، اور لوگوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے۔اپنے آپ کو راہ یافتہ اور  راہنما سمجھتے ہو ،حالانکہ خود  گم کردہ اور بھٹکانے والے ہو۔ہم ایسے لوگوں کو قطعا پسند نہیں کرتے  جو لوگوں کو صرف اس لئے مرید کرتے ہیں تاکہ ان سے ٹکے وصول کریں۔ایک نیک علم سیکھ کر دنیا بٹورتے ہو ، کیونکہ جب تک دیندار لوگوں کی شکل و شباہت اور طرز و انداز،  نہ اپنائیں دنیا حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہ میں ان لوگوں سے راضی ہوں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بجائے  خود اپنی طرف بلاتے ہیں  اور اپنی مرضی کی پابندی کا لوگوں کو حکم دیتے ہیں۔یہ لوگ بٹ مار اور راہزن ہیں۔ ان کا شعار دجالوں ، کذابوں قتالوں اور ان لوگوں میں ہے جو فتنہ اور آزمائش کے شکار ہیں"۔(19)
شاہ صاحب نے  تصوف کے میدان پائے جانے  والے غلط نظریات اور افراط و تفریط میں   درستگی اور اصلاح کی کوشش بھی  فرمائی ہے۔ مثلا:
1.     بعض متاخر صوفیاء کے ہاں ایسے اقوال ملتے ہیں ،جن سے لگتا ہے  یہ حضرت انسان کو  ملک مقرب  پر فضیلت دیتے ہیں۔لیکن شاہ صاحب نے اس کی تردید کی ہے۔
2.      " الولایۃ افضل من النبوۃ" ولایت نبوت سے افضل ہے ۔اس عقیدہ کا رد کیا ہے۔
3.     شیخ کی اندھی تقلید کی بھی مخالفت کی ہے۔اگر کوئی شیخ کسی ناجائز  کام حکم دے تو  حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔
4.      حلول و اتحاد  کے عقیدہ کو خالصتا غیر اسلامی قرار دیا ہے، اور اس کا بھر پور رد کیا ہے۔
5.     صوفیاء کے ہاں ظاہر و باطن کی جامعیت کا جو فقدان ہے ، اس پر تنقید کی ہے اور ظاہر اور باطن دونوں کی تطہیر و تعمیر پر زور دیتے ہیں۔
6.     حد سے تجاوز کرنے والے متقشف قسم کے  زاہدوں  پر سخت تنقید کی ہے۔
7.     تصوف میں شامل ہو جانے والے غلط نظریات اور افراط و تفریط  سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
8.     صوفیاء کی غلط تاویلات  کو غیر شرعی اور ناپسند  قرار دیتے ہیں۔
9.     ہر  وہ فلسفہ جس کی کوئی اصل قرآن و حدیث میں نہیں  ملتی، سختی سے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
10. آپ کے نزدیک تصوف اور روحانی فکر کی اساس و بنیاد قرآن و سنت پر استوار ہے۔ 
شاہ صاحب  فلسفہ آمیز ، خرافات  و اوہام، غلط نظریات اور افراط و تفریط سے آلود ہ  مروجہ تصوف کی جتنی شدت کے ساتھ  نفی اور تنقید کرتے ہیں اتنی ہی شدت کے ساتھ درست اور اسلامی تصوف کی وابستگی پر زور  بھی دیتے ہیں۔تصوف کو انسان کی  اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔چنانچہ اپنی کتاب " الطاف القدس " میں چار اخلاقی اصولوں کو تصوف کا مدار قرار دیتے ہیں:
1.     پہلا اصول طہارت کا ہے ، جس کی روح یہ ہے کہ باطن منور  اور پاکیزہ ہو، اور انشراح   و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو۔ افکار پریشاں ، نظریات ثولیدہ ، جزع  فزع  اور  فریاد و ماتم سے دور و مبرا ہو۔
2.      دوسرا اصول  تواضع  کا ہے جو جبروت سے آشنائی پیدا کرتا ہے۔عبادات ،اذکار اور تلاوت کے ذریعے قلب میں سوز و گداز ،فراتنی اور خاکساری کا محرک بنتا ہے۔اس سے انسان کے اندر خشوع و خضوع  کا وصف پیدا ہوتا ہے۔
3.     تیسرا اصول سخاوت کا ہے جس کے دائرہ میں زہد و قناعت، جود و سخا ،تواضع و انکساری،صبر و شکر،لینت و نرمی  کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
4.      چوتھا اصول عدالت ہے ، جس میں عدل اجتماعی ، تدبیر منزل اور اصلاحی امور شامل ہیں۔ (20)
شاہ صاحب  نے تصوف کے متعلق درج ذیل کتابیں تصنیف کی ہیں:
1.     الطاف القدس : یہ کتاب  تصوف و احسان کے اسرار و رموز ، لطائف نفس  ،   اور روحانی حقائق و معارف پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا مرکزی موضوع  "لطائف نفس" ہے ۔  اس کتاب کا شمار تصوف کی اہم کتابوں میں ہوتا ہے۔
2.      ہمعات : یہ فارسی زبان میں تاریخ تصوف ، فلسفہ تصوف اور اصطلاحات تصوف  پر  ایک شاہکار تصنیف ہے۔ جس میں تصوف کے چار ادوار  اور ان میں ہونے والے رونما ہونے  والے تغیرات و حالات کا جامع ذکر ہے۔ نیز اس میں طبقات صوفیاء ،ان کے مراتب  اور نسبتوں کو بھی  بیان کیا گیا ہے۔
3.     لمعات : یہ  فارسی زبان میں سات لمعات پر مشتمل   تصوف کی اہم ترین  کتاب ہے۔ اس   میں بھی تصوف و کلام  کی اہم  ابحاث اور  مسائل مثلا ابداع خلق ، تدبیر ، وحدۃ الوجود ، وحدۃ الشہود، وجود فی الخارج ، وجود فی الاعیان  ، عالم مثال ، شخص اکبر وغیرہ  بیان کئے گئے ہیں۔
4.      سطعات : یہ فارسی زبان میں چھیالیس سطعات پر مشتمل  تصوف کی جامع  کتاب ہے۔ہر سطعہ میں تصوف کے اہم اور دقیق مسئلہ پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کتاب  میں تجلیات الٰہیہ  کے اہم مباحث اور تصوف کی  اصطلاحات مثلا   وحدۃ الوجود ، عام خاص ، اخص الخواص ،انسان کامل ، ذات بحت ، شخص اکبر  وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔
5.     البدور البازغہ: یہ کتاب عربی زبان میں ہے ، جو فلسفہ اور تصوف کے حقائق  و معارف پر مشتمل ہے۔
6.     التفہیمات الالٰہیہ : یہ کتاب تصوف اور سلوک کے مقالات پر مشتمل ہے۔مقالات عربی اور فارسی  دونوں زبانوں میں ہیں، یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔تصوف اور سلوک کی باتوں کے ساتھ ساتھ  اپنے دور کی خرابیوں ،عیوب و نقائص کی نشاندہی  کے ساتھ  معاشرے کے ہر طبقے کو اصلاح   کی تاکید کی گئی ہے۔
7.     الخیر الکثیر : یہ کتاب  عربی زبان میں ہے،   اس کا موضوع فلسفہ دینی ہے۔خزائن حکمت سے بھر پور  اور اپنے موضوع پر  بے نظیر کتاب ہے۔ ولایت کی حقیقت  اور اس کے اقسام،  اہل صفا  کے  مسالک و طرق ،ذات اسماء الٰہی  کی حقیقت اور مسئلہ وحدت الوجود پر عارفانہ اور فلسفانہ بحث کی گئی ہے۔
علم کلام:
عقائد اور اس سےمتعلق مباحث اور دلائل کو جاننے کا نام علم کلام ہے۔اس میں  وجود باری تعالیٰ ، صفات الٰہیہ ، انبیاء کرام کی بعثت، معجزہ اور کرامت وغیرہ امور سے متعلق عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں بحث کی جاتی ہے۔اس علم کی بدولت آدمی کے عقائد پختہ ہوتے ہیں، اور اسلامی عقائد کو غیر اسلامی اور کفریہ عقائد سے ممتاز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا ایک مقصد  اسلامی عقائد اور نظریات  میں پیش آنے والی خرابیوں اور واہمات کو اصل دین کی بنیاد سے الگ رکھنا بھی ہے تاکہ دین  ویسا ہی رہے جیسا کہ  دور رسالت مآب ﷺ میں تھا۔یہ علم عقل کی روشنی میں اسلام کے بنیادی عقائد  مثلا توحید، رسالت ، عدل ، نبوت، قیامت  وغیرہ کی وضاحت اثبات اور ان عقائد پر ہونے والے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  کے دور میں  ہندوستان کے مدارس میں منطق و فلسفہ کا بڑا زور اور چرچا تھا، گویا اس فن کے بغیر کوئی شخص عالم اور دانشور نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ منطق و فلسفہ ، عقلی موشگافی، لفظی بازی گری اور لا حاصل بحثوں کے سوا  کچھ اہم نہ تھا، اور اسلامی فلسفہ محض ایک قصہ پارینہ بن چکا تھا۔آپ نے  اپنے دور کی عام روش سے ہٹ کرایک نئے انداز سے فلسفیانہ بحثوں کا رخ اسلامی عقائد و عبادات ، اخلاق و معاشرت ، سیاست و معیشت کی حکمت اور اسرار و رموز کے انکشاف کی طرف موڑا اور دین کی  کلیات سے لےکرجزئیات  تک کو عقلی انداز میں پیش کیا۔ان کی شہرہ آفاق اور مہتم بالشان کتاب " حجۃ اللہ البالغہ" اول تا آخر شریعت کے مبادی اور احکام کی حکمتوں اور مصالح سے معمور ایک روشن اور زندہ  جاوید کتاب ہے۔
مشہور مؤرخ شیخ محمد اکرام  نے شاہ صاحب  کو   جدید علم کلام   کا   موجد  قرار دیا ہے  کہ انہوں نے ہندوستان میں  ایک  جدید علم الکلام  کی ابتداء  کی ہے اور آنے والے لوگوں کے لئے غور و فکر کا ایک بہت بڑا میدان پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ  اپنی کتاب " رود کوثر " میں  لکھتے ہیں:
" واقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے آپ اسلامی ہندوستان کے سب سے پہلے متکلم ہیں۔ عباسیہ دور میں علم کلام اس لئے وجود میں آیا تھا کہ اسلامی خیالات کو یونانی فلسفہ کے مطابق ثابت کرے،  دور جدید میں  سر سید اور ان کے  رفقاء کی کوشش تھی کہ وہ اسلامی مذہب و فلسفہ کو جدید سائنس اور نیچر سے ہم آہنگ قرار دیں۔ شاہ ساحب اس قسم کے متکلمین میں سے نہیں  لیکن اسلامی تعلیمات کو انسانی دنیا کے بنیادی واقعات اور اصولوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی کوشش ضرور ان کی تصانیف میں ہے۔ان کی مشہور تصنیف "حجۃ اللہ البالغۃ" میں یہ کوشش خاص طور پر نمایاں ہے۔اس میں انہوں نے اسلامی احکام کی مصلحتیں بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ احکام فلاح انسانی کے لئے بے حد مفید ہیں ، اور ان کی غرض و غایت ہی انسانی فلاح و تہذیب ہے۔ شاہ صاحب نے  اس کتاب اور دوسری تصانیف میں ایسی باتیں کہی ہیں جن سے متکلمین کی ترجمانی ہوتی ہے۔حجۃ اللہ البالغہ کے دیباچہ میں شاہ صاحب کا یہ مشہور فقرہ " مصطفوی شریعت کے لئے وقت آگیا ہے کہ برہان اور دلیل کے پیراہنوں میں ملبوس  کر کے اسے میدان میں لایا جائے" ایک نئے علم کلام کا پیغام نہیں تو اور کیا ہے؟۔(21)
علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں:
ترغیبات و ترہیبات کے متعلق جو کچھ شریعت میں وارد ہے وہ  ہنسنے کے قابل باتیں ہیں۔ غرض منکرین اس قسم کے بہت سے اعتراضات کرتے ہیں ، ان کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ شریعت کی تمام باتیں عقل کے موافق ہیں۔" حجۃ اللہ البالغہ جس میں انہوں نے شریعت کے حقائق اور اسرار بیان کئے ہیں در حقیقت علم کلام کی روح رواں ہے۔علم کلام در حقیقت اس کا نام ہے کہ مذہب اسلام  کی نسبت یہ ثابت کیا جائے کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ مذہب دو چیزوں سے مرکب ہے عقائد اور احکام، شاہ صاحب کے زمانے تک جس قدر تصانیف  لکھی جا چکی تھیں وہ صرف پہلے حصہ کے متعلق تھیں، دوسرے حصہ کو کسی نے مس نہیں کیا تھا۔شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی۔ خود دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ  " جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید کا معجزہ عطا ہوا تھا جس کا جواب عجم و عرب سے نہ ہوسکا،اسی طرح آپ کو جو شریعت عطا ہوئی تھی وہ بھی معجزہ تھی۔ کیونکہ ایسی شریعت کا وضع کرنا جو ہر طرح  پر ،ہر لحاظ سے کامل ہو طات انسانی سے باہر ہے۔ اس لئے جس طرح قرآن مجید کے معجزہ ہونے پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں  ضروری ہے کہ  اس معجزہ کے متعلق بھی مستقل تصنیف لکھی جائے" پھر لکھتے ہیں کہ " اہل بدعت نے اکثر اسلامی مسائل کے متعلق یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ عقل کے خلاف ہیں مثلا وہ کہتے ہیں کہ عذاب قبر ، حساب ، پل صراط، میزان کو عقل سے کیا تعلق ہے؟  رمضان کے اخیر دن کا روزہ واجب ہو اور شوال کی پہلی تاریخ کا حرام؟ اس کے کیا معنی؟
علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں:
"شاہ صاحب نے یہ دو غرضیں جو بیان کی ہیں، علم کلام کے اہم المقاصد ہیں اور اس لحاظ سے ہم ان کی کتاب کو در اصل علم کلام کی کتاب قرار دیتے ہیں" (22)
شاہ صاحب نے جن مہتم بالشان مسائل کلامیہ پر اپنی کتاب " حجۃ اللہ البالغہ" میں بحث کی ہے وہ حسب ذیل ہیں:
1.     انسان مکلف کیوں بنایا گیا ہے؟ یعنی اس کو اوامر و نواہی کی کیوں تکلیف دی گئی ہے۔
2.      خدا کی عادت یا فطرت میں تغیر و تبدیلی نہیں ہوتی۔
3.     روح کی حقیقت
4.      جزا و سزا کی حقیقت
5.     واقعات قیامت کی حقیقت
6.     عالم مثال
7.     نبوت کی حقیقت
8.     تمام مذاہب کی اصل ایک ہے
9.     اختلاف شرائع کے اسباب
10. ایک ایسے مذہب کی ضرورت جو تمام مذاہب قدیم کا ناسخ ہو۔ (23)
شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ کے علاوہ  اپنی ایک اور عربی  تصنیف " البدور البازغہ "میں بھی   اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات،امور الٰہیات اور انسان کی جبلی اور اجتماعی زندگی سے متعلق فلسفیانہ رنگ میں بحث کی ہے۔اسی طرح  " الخیر الکثیر " میں بھی علم کلام   کے مختلف مضامین توحید ، رسالت ، قرآن احوال ومراتب،شریعت کے نشوونما اور ارتقا سے بحث کی گئی ہے ۔ اس کتاب کا انداز بحث  بھی فلسفیانہ ہے۔
حوالہ جات:
 (1) ملفوظات عزیزی،ص:40۔
 (2) جلبانی، غلام حسین،پروفیسر،شاہ ولی اللہ کی تعلیم ،لاہور ،(ادارہ  مطبوعات ،لاہور، 1999ء) ص: 89۔
 (3) ایضا ،ص: 42۔
 (4) دہلوی، بشیرالدین ،واقعات دارالحکومت دہلی (اردو اکیڈمی،،دہلی،1990ء)2/ 584۔
(5) صدیقی، بختیار حسین،مسلمانوں کی تعلیمی فکر کا ارتقاء (ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور، 1983ء)ص: 98۔
 (6) دہلوی،رحیم بخش،حیات ولی( افضل المطابع ،دہلی ، س۔ن) ص  212۔
 (7)دہلوی ،شاہ ولی اللہ ،مقدمہ فتح الرحمٰن ( فارسی ) ص 2 ، دہلی مطبع فاروقی ، س۔ن۔
 (8) ایضا، ص:2۔
 (9) شاہ ولی اللہ ،التفہیمات الالٰہیہ( المجلس العلمی،دھبیل۔1936ء)2/162۔
 (10) شاہ ولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مطبع ندوۃ العلماء،لکھنو،1984ء)ص:25۔
 (11) ندوی،ابوالحسن علی،مولانا،تاریخ دعوت و عزیمت،کراچی،مجلس نشریات اسلام،س۔ن، ج۔5 ،ص۔145۔
 (12) التفہیمات الالٰہیہ ،2/214۔
 (13) دریابادی،عبدالماجد،مولانا،الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر(مکتبہ الفرقان،بریلی،1359ھ) ص:13۔
 (14) نذیر احمد،ڈپٹی،ترجمة القرآن،(مقدمہ)،(تاج کمپنی،کراچی،1966ء) ص:9۔
 (15) دہلوی،شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ (دار الجیل،بیروت،2005ء)1/21۔
 (16) ایضا،ص: 21۔
 (17) دہلوی،ذکاء اللہ، تاریخ ہندوستان ( سنگ میل پبلیکیشنز۔لاہور ) 2/54۔
 (18) قاسمی، اخترامام عادل،شاہ ولی اللہ اپنے  فقہی نظریات و خدمات کے آئینے میں( جامعہ ربانی،منوروا،(بہار)2004ء)ص:27۔
 (19) التفہیمات الالہیہ، 2/214۔
 (20) دہلوی، شاہ ولی اللہ،الطاف القدس ،مترجم سید محمد فاروق القادری(المعارف  گنج بخش روڈ ،لاہور،1975ء)ص:38۔
 (21) محمد اکرام، شیخ، رود کوثر ( ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 2005ء)ص: 583۔
 (22) شبلی نعمانی،علامہ ، علم الکلام(مطبع معارف اعظم گڑھ،1341ھ)1/112۔

 (23) علم الکلام،1/112۔

2 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ ❣️
جزاک اللّہ محترم۔
لاکھوں سلام ہو آپ پر۔
کیا زبردست لکھا ہے بہت ہی زبردست۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

اگر آپ کے پاس شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادگان کے بھی متعلق ہیں تو ارسال کریں محترم

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔