pati

بلاگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے .بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ،

Thursday 9 April 2020

شاہ ولی اللہ کا نظریہ تقلید

شاہ ولی اللہ کا نظریہ تقلید

قرآن و سنت کے بعض احکام  قطی الثبوت اور  قطی الدلالت ہیں ۔ ایسے احکام میں نہ اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی  کسی مجتہد کی تقلید کی، جیسے نماز پنجگانہ،    زکوٰۃ، روزہ، حج کی فرضیت  اور محرمات سے نکاح کی حرمت وغیرہ، جن آیات اور احادیث  سے ان احکام کی فرضیت و حرمت ثابت ہوتی ہے ان میں کوئی اجمال و ابہام نہیں پایا جاتا۔ ہر شخص  بلا تکلف ان کو سمجھ سکتا ہے اور عمل کر کے رضاالٰہی کو حاصل کر سکتا ہے۔
احکام شرعیہ کی دوسری قسم وہ ہے  جن کے معنی ظاہر نہیں، ان میں اجمال و ابہام  اور ادلۃ کا تعارض پایا جاتا ہے۔
ایسے مواقع پر  عقلا دو صورتیں ممکن ہیں ،   اول صورت  یہ ہے کہ  ہم خود اپنے فہم و بصیرت اور اپنے علم  پر اعتماد کر کے کوئی ایک  جانب متعین کریں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے علم  و فہم پر اعتماد کی بجائے  یہ دیکھیں کہ ہمارے جلیل القدر اسلاف نے ان جیسے معاملات میں کیا طرز عمل اختیار کیا ہے۔ جس مجتہد پر  اعتماد  ہو اس کے قول  پر عمل کر لیا جائے  ۔ یہ دوسرا طریقہ اصطلاحا" تقلید" کہلاتا ہے۔

تقلید کا لغوی معنیٰ:
                       تقلید باب تفعیل کا مصدر ہے  اور باب تفعیل  بذات خود متعدی ہے۔ تقلید قلادہ سے ماخوذ ہے  اور قلادہ گلے کے ہار کو کہتے ہیں۔اس صورت میں تقلید کے معنی ہونگے :
                                        "گلے میں ہار ڈالنا یا کسی چیز کو گلے کا ہار بنالینا"
ابن قدامہ  لکھتے ہیں:
التقلید فی اللغۃ وضع الشیء فی العنق مع الاحاطۃ بہ و یسمیٰ ذالک قلادۃ والجمع قلائد و قال اللہ  تعالی  " ولا الھدی ولا القلائد" ثم یستعمل فی  تفویض الامر الی الشخص استعارۃ کانہ ربط الامر بعنقہ۔(1)
" لغت میں تقلید کے معنی  ہیں کہ گردن میں کوئی چیز ڈال دینا اور اسے ہار کہتے ہیں۔اس کی جمع قلائد ہے۔اللہ تعالی فرماتاہے  نہ کوئی جانور بھیجا جائے اور نہ کوئی ان کے ہار۔ بعد ازاں کسی شخص کے کچھ سپرد کیا جائے تو اس معنی میں تقلید کو استعمال کیا جانے لگا، گویا اس کی گردن میں کسی کام کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔"
حدیث مبارکہ میں  " قلادہ " کا لفظ    " ہار " کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے:
" استعارت من اسماء قلادۃ " (2)
                                "انہوں نے حضرت اسماء سے عاریتا " ہار " لیا تھا "۔

تقلید کا اصطلاحی مفہوم :
علماء اصولیین کے نزدیک   تقلید کا اصطلاحی معنی یوں بیان کیا گیا ہے :
                     "دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینا  اور اس پر عمل کر لینا۔"
چنانچہ قاضی محمد علی تھانوی  لکھتے ہیں:
" التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقۃ
 من غیر نظر الی الدلیل " (3)
" کسی آدمی کا دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر  اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرنا ، تقلید  کہلاتا ہے۔"
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (م: 505ھ) نے تقلید کی تعریف یوں بیان کی ہے:
                    "ھو قبول قول بلا حجۃ " (4)
                      " کسی کی بات بغیر دلیل کے قبول کر لینا تقلید ہے۔"
ابن قدامہ نے  یوں تعریف بیان کی ہے:
                    "ھو قبول قول الغیر من غیر حجۃ " (5)
                              " کسی دوسرے کی بات بلا دلیل قبول کرنا ، تقلید ہے۔"

شاہ ولی اللہ  کے نزدیک تقلید یہ ہے کہ احکام شریعت  کی معرفت کے لئے  سلف پر اعتماد کرنا اور ان کے عمل و تشریحات  پرعمل کرنا۔ گویا ان کے نزدیک  بڑوں ( متقدمین) کی بات ماننا تقلید ہے۔
" ان الامۃ اجتمعت علی ان یعتمدوا علی السلف فی معرفۃ الشریعت " (6)
"  بے شک امت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے  کہ  احکام شریعت کی معرفت  کے لئے سلف پر اعتماد کیا جائے"
علماء  نے تقلید کی جو  تفصیل اور تعریفات بیان کی ہیں ان کا حاصل  یہ ہے کہ:
شریعت کے بے شمار مسائل ایسے ہیں  جن کا کوئی حکم کتاب و سنت کی نصوص  و عبارات میں صاف اور صریح لفظوں میں دو ٹوک اور قطعی انداز میں مذکور نہیں ہے۔ ایسے مسائل میں شریعت کے مقرر کردہ حدود کے مطابق  غور و فکر  کے ذریعہ احکام کی تلاش و جستجو  " اجتہاد " کہلاتی ہے۔ جو لوگ  اس کے اہل و مستحق ہیں، ان کی بات اور  فیصلے کو  بغیر کسی دلیل کی طلب اور تحقیق کے   مان کر  اتباع و پیروی کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
اس عمل کو  ماننے کی بنیاد یہ ہے کہ آئمہ و مجتہدین کوقرآنی دانی اور سنت فہمی میں خاص دسترس حاصل ہے۔ انہوں نے  جو بھی رائے  قائم کی ہے  وہ کتا ب و سنت کی روشنی میں پوری دیانت و امانت کے ساتھ قائم کی ہے۔ اس عمل میں انہوں نے  ذاتی مفاد و خیانت سے کام نہیں لیا ہے، اسی اعتماد پر بحیثیت شارح قانون و ترجمان شریعت   ان کی بات مان کر  پیروی کرنے کو  شرعی و فقہی تقلید کہتے ہیں۔

تقلید اور قرآن:

            قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی ہیں جن سے اصولی طور پر  مجتہدین آئمہ  کی  تقلید کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔ چنانچہ  سورہ نساء میں ارشاد باری تعالی ہے:
1۔  " یایھا الذین اٰمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم" (7)
" اے ایمان والو!  اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ، اور  تم میں سے جو اولی الامر  ہیں ان کی اطاعت کرو"۔
اس آیت میں اللہ اور  رسول کی اطاعت کے ساتھ  " اولی الامر " کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، مفسرین کی ایک بڑی جماعت  کے نزدیک  اس سے مراد علماء مجتہدین ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت حسن بصری ، حضرت عطاء بن ابی رباح ، حضرت عطاء بن السائب  رحمہم اللہ سے یہی تفسیر منقول ہے ۔ امام فخرالدین  رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔(8)
2۔ "واذا جاءھم امرمن الامن اوالخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم" (9)
 "اور جب  ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں۔ اگر  رسول اور اپنے میں سے اولی الامر کے پاس لے جاتے  تو ان میں  جو اہل استنباط (مجتہدین) ہیں اسے اچھی طرح جان لیتے”۔
اس آیت میں از خود عمل کرنے  اور اہم معاملات  کی تشہیر کو منع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مجتہدین کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام رازی نے اس آیت سے چند امور اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" فثبت ان الاستنباط حجۃ والقیاس اما الاستنباط او داخل و فیہ فوجب ان یکون حجۃ اذ ثبت ھذا فنقول الایۃ دالۃ علی امور :
احدھا ان فی احکام الحوادث ما لا یعرف بالنص بل بالاستنباط
ثانیھا ان الاستنباط حجۃ
ثالثھا ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث" (10)
" تو ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے، اور قیاس  یا تو استنباط ہے یا اس میں داخل ہے، تو وہ بھی حجت ہوا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم کہتے ہیں  کہ  یہ آیت  چند امور پر دلالت کرتی ہے:
1.     پیش آمدہ مسائل میں بعض امو ر ایسے ہیں  جو نص سے نہیں استنباط سے جانے جا سکتے ہیں۔
2.      استنباط حجت ہے۔
3.     عام آدمی کے لئے ان پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید واجب ہے۔
3۔ "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون" (11)
" اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے دریافت کرو"
علامہ آلوسی صاحب روح المعانی  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"و استدل بھا  ایضا علی وجوب المراجعۃ  للعلماء فیما لا یعلم" (12)
" اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس بات کا خود علم نہ ہو  اس میں علماء کی جانب رجوع کرنا واجب ہے"۔

تقلید اور حدیث:

ذخیرہ  احادیث میں بھی کافی احادیث  مرفوعہ ایسی موجود ہیں جن سے مسئلہ تقلید کی راہنمائی ملتی ہے۔
1۔ عن جابر قال : خرجنا فی سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجہ فی راسہ ثم احتلم ، فسال اصحابہ ، فقال : ھل تجدون لی رخصۃ فی التیمم ؟ فقالوا: ما نجد لک رخصۃ وانت تقدر علی الماء ، فاغتسل فمات۔ فلما قدمنا علی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اخبر بذالک ، فقال: " قتلوہ قتلھم اللہ، الا سالوا اذلم یعلموا، فانما شفاء العی السوال، انما کان یکفیہ ان یتیمم و یعصر او یصعب علی جرحہ خرقۃ ثم یمسح علیھا و یغسل سائر جسدہ"۔(13)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا : کیا تم لوگ میرے لئے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ان لوگوں نے کہا : ہم تمہارے لئے تیمم کی رخصت نہیں پاتے ، اس لئے کہ تم پانی پر قادر ہو ، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے  اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی  تو آپ نے فرمایا:
" ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو  انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم  کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو لیتا"۔
اس حدیث سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر علم کے فتویٰ نہیں دینا چاہئے اور مسائل کے حل کے لئے اصحاب علم سے رجوع کرنا چاہئے۔

عن ابی حذیفۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
" اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر" (14)
حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" ان دونوں کی اقتداء کرو جو میرے بعد ہونگے، یعنی ابوبکر اور عمر"
اس حدیث میں لفظ " اقتداء" مذکور ہے جو دینی امور میں کسی کی پیروی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
"القدوۃ والقِدوۃ ماتسننت بہ" (15)
" قدوہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی سنت پر تم عمل کرو"

3۔ عن العرباض ابن ساریۃ یقول قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:
"سترون من بعدی اختلافا شدیدا فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین" (16)
عرباض بن ساریہ  فرماتے ہیں  کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:
" میرے بعد تم لوگ بہت اختلاف دیکھوگے تو میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پابندی کرنا"
اس حدیث مبارکہ سے علماء کرام نے خلفاء راشدین کے عموم میں آئمہ مجتہدین کو بھی داخل کیا ہے۔چنانچہ شیخ عبدالغنی( م: 1295ھ)   ابن ماجہ کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
" ومن العلماء من کان علی سیرتہ علیہ السلام من العلماء والخلفاء کالآئمۃ الاربعۃ المتبوعین المجتھدین والآئمۃ العادلین کعمر بن عبدالعزیز کلھم موارد لھذاالحدیث" (17)
" علماء میں سے جو  رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پر ہوں ، جیسے چاروں آئمہ اور عادل حکام جیسے عمر بن عبدالعزیز سب اس حدیث کے مصداق ہیں"۔

تقلید کے اقسام :
تقلید کی دو قسمیں ہیں۔
                          1  ۔تقلید   شخصی                        2 ۔ تقلید غیر شخصی
تقلید شخصی:
تقلید شخصی سے مراد  یہ ہے کہ شرعی مسائل میں کسی خاص امام و مجتہد  یا خاص مکتب فکر  کو اختیار کیا جائے۔ اور ہر مسئلہ میں  اس کا قول اختیار کیا جائے ۔

تقلید  غیر شخصی:
تقلید غیر شخصی(مطلق)  سے مراد یہ ہے کہ مسائل و احکام  کے حل کے لئے کسی خاص امام و مجتہد  کا پابند ہو کر نہ رہ جائے ، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک مجتہد کا مسلک اختیار کیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں  دوسرے مجتہد عالم کی رائے قبول کر لی جائے۔  اسے تقلید مطلق  ،تقلید عام،  اور  تقلید غیر شخصی بھی  کہتے ہیں۔

شاہ ولی اللہ کے نزدیک تقلید کی ابتدا  اور اس کا ارتقاء:

            شاہ صاحب کے نزدیک " تقلید " کا رشتہ  دور صحابہ سے جڑا ہوا ہے۔ آپ نے  عہد صحابہ سے لے کر مسالک اربعہ کے ظہور تک  تقلید کے تسلسل کا ذکر کیا ہے اور لکھا کہ  کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے  تقلید کا انکار نہیں کیا۔ چنانچہ  اپنی تصنیف" عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید " میں فرماتے ہیں:
" لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الی ان ظھرت  المذاھب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر یعتبر  انکارہ ولو کان ذالک باطلا لانکروہ۔" (18)
" عہد صحابہ  سے ظہور مذاہب اربعہ تک علماء کرام  میں سے جس پر بھی اتفاق ہوتا لوگ اس کی تقلید کرتے رہے۔ اور یہ عمل بغیر کسی اعتراض کے برابر جاری رہا، اگر تقلید باطل ہوتی تو وہ لوگ ضرور اس کا انکار یا   مخالفت کرتے ۔"
چنانچہ  صحابہ کرام میں سے جو حضرات تحصیل علم میں زیادہ وقت  نہ دے پاتے یا  اپنے آپ کو اہل استنباط و اجتہاد نہیں سمجھتے تھے ، وہ فقہاء  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے رجوع کرتے تھے۔ اور ان کے بتائے ہوئے مسائل پر اعتماد کر کے عمل فرماتے تھے۔ اس کی بے شمار  مثالیں ذخیرہ احادیث میں  موجود ہیں۔ جن سے شاہ صاحب کے اس مذکورہ قول کی تائید بھی ہوتی ہے۔
دور صحابہ میں تقلید شخصی کی مثال :
حضرت ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
"  لا تسئلونی فی ما دام ھذا الحبر فیکم " (19)
" جب تک تم میں یہ حبر  یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ  عنہ موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھو۔"
یہ حدیث  تقلید شخصی کی طرف واضح رہنمائی کرتی ہے۔

عن عکرمۃ ان اھل المدینۃ سالوا ابن عباس رضی اللہ عنہ عن امراۃ طافت  ثم حاضت ۔ قال لھم تنفر، قالوا لا ناخذ بقولک و ندع قول زید۔(20)
" بعض اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس  سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جو  طواف فرض کے بعد  حائضہ ہوگئی۔( کیا اس سے طواف وداع ساقط ہو جائے گا یا انتظار کرے؟) آپ نے فرمایا وہ ( طواف وداع کے بغیر ) جاسکتی ہے۔اہل مدینہ نے کہا ہم  زید بن ثابت کے قول کو چھوڑ کر  آپ کے قول پر عمل نہیں کرینگے"۔
اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ  اہل مدینہ حضرت زید بن ثابت کی تقلید شخصی کرتے تھے۔اور ان کے قول کے خلاف  کسی کے قول پر عمل نہیں کرتے تھے۔چونکہ حضرت ابن عباس نے اپنے فتوی کی دلیل  میں حضرت ام سلیم وغیرہ کی حدیث سنائی تھی۔ جس کے نتیجے میں حضرت زید بن ثابت  نے مکرر حدیث کی تحقیق فرماکر اپنے سابقہ فتوے سے رجوع فرمالیاتھا۔رجوع کے بعد جب اہل مدینہ کی ملاقات  دوبارہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا:
                         "وجدنا الحدیث کما حدثتنا" (21)

دور صحابہ میں تقلید مطلق(  غیر شخصی)  کی مثال:
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الناس بالجابیۃ فقال: من اراد ان یسئل عن القرآن فلیات ابی ابن کعب، ومن اراد ان یسئل عن الفرائض فلیات زید بن ثابت، ومن اراد ان یسئل عن الفقۃ  فلیات معاذ ابن جبل  ومن اراد  ان یسئل عن المال  فلیاتنی ، فان اللہ  جعلنی لہ خازنا و قاسما۔(22)
حضرت عمر   رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے  فرمایا:
  اے لوگو! جو شخص قرآن کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہے وہ ابی ابن کعب کے پاس جائے۔ جو میراث کے متعلق پوچھنا چاہتا ہے وہ  زید بن ثابت  کے پاس جائے۔ جو شخص فقہ کے متعلق پوچھنا چاہتا ہے  وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے، اور جو شخص مال کے متعلق سوال کرنا چاہے  وہ میرے پاس آجائے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے مجھے اس کا  خازن اور تقسیم کنندہ بنایا ہے"۔
چونکہ  ہر شخص  شرعی مسائل  کا حل سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے لوگوں کو  یہ ہدایت کی کہ وہ  علم تفسیر، فرائض اور فقہ کے معاملہ میں  ممتاز  اور ماہر علماء سے رجوع کریں۔

"عن سالم بن عبد اللہ  عن عبد اللہ  بن عمر انہ سئل عن الرجل یکون لہ الدین علی الرجل الی اجل فیضع عنہ صاحب الحق ویعجلہ  الاخر ، فکرہ ذالک عبد اللہ بن عمر و نہی عنہ۔" (23)
" حضرت سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ  حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے  یہ مسئلہ پوچھا گیا  کہ کسی شخص کا دوسرے پر کچھ میعادی قرض  ہے۔ اور صاحب حق اس میں سے کسی قدر اس شرط پر معاف کرتا ہے کہ وہ میعاد سے پہلے ادائیدگی کر دے، حضرت عبد اللہ بن عمر نے اس کو ناپسند کیا اور اس سے منع فرمادیا"۔
اس مثال میں جو مسئلہ پوچھا  گیا تھا اس کے متعلق کوئی صریح حدیث مرفوع منقول نہیں تھی ۔ اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ  ابن عمر نے اپنے اجتہاد و قیاس  کے ذریعہ  اس سے منع فرمایا۔ یہاں نہ سوال کرنے والے نے  دلیل پوچھی اور  نہ ابن عمر نے دلیل   بتائی۔ کسی کی بات بغیر دلیل کے قبول کر لینا  ہی "تقلید"  کہلاتا ہے۔
دور صحابہ کے بعد تابعین میں بھی نامی گرامی مجتہدین  ہوئے ، لوگ شرعی مسائل کے حل کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
"فعند ذالک صار لکل عالم من علماء التابعین مذھب علی حیالہ فانتصب
 فی کل بلد امام" (24)
" پس اس وقت تابعین  علماء میں سے ہر عالم ( مجتہد) کے لئے مستقل مذہب ہوا، اور اس طرح گویا ہر شہر میں ایک امام پیدا ہوگیا"
جیسے مدینہ میں سعید بن مسیب، سالم بن عبداللہ بن عمر اور ان کے بعد زہری، قاضی یحیٰ بن سعید اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ۔ مکہ میں عطاء بن ابی رباح، کوفہ میں ابراہیم نخعی اور امام شعبی، بصرہ امام حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں امام مکحول امام بنے۔
صحابہ کرام اور تابعین کا زمانہ چونکہ زمانہ نبوت سے قریب تر تھا ، اس وجہ سے وہ خیر و برکت اور خلوص و للٰہیت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں تقلید غیر شخصی میں کسی قسم کی بڑی مضرت کا گمان نہیں ہو سکتا تھا، کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے۔اس لئے اس زمانہ میں تقلید کے دائرہ کار کا وسیع ہونا کوئی تعجب خیز امر نہ تھا۔دوسری بات یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں علم فقہ کی تدوین بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔
حضرات تابعین کے بعد کا زمانہ چونکہ زمانہ نبوت سے دور ہو چکا تھا اور لوگوں کی طبیعتیں پہلے سے مختلف ہوگئیں تھیں، فسق و فجور، ہوا و ہوس کا غلبہ تھا، اوردیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا تھا۔ اس لئے تقلید کی موجودہ وسعتوں کو تقلید شخصی میں محدود کرنا  ناگزیر تھا، ورنہ مفاسد کا دروازہ کھل جاتا اور شرائع و احکام شرع  بازیچہء اطفال بن کر رہ جاتے۔چنانچہ دوسری صدی ہجری کے اختتام پر آئمہ مجتہدین کے تفقہات کتابی شکل میں مدون ہونا شروع ہوگئے۔جن لوگوں کو تدوین شدہ مذاہب میسر آئے  انہوں نے اسی مذہب کو اپنا کر  اس کی پیروی( تقلید شخصی) اختیار کر لی۔ البتہ جن کو وہ مذاہب میسر نہ ہو سکے وہ  اس زمانہ میں بھی بدرجہ مجبوری تقلید مطلق ( غیر شخصی) ہی کرتے رہے۔ حتی کہ ان کو کوئی مدوّن مذہب دستیاب ہو گیا۔
چنانچہ  شاہ صاحب اس بارے فرماتے ہیں:
"وبعد الماتین ظھر فیھم التمذھب  للمجتھدین اعیانھم، و قلّ من کان لا یعتمد علی مذھب مجتھد بعینہ وکان ھو الواجب فی ذالک الزمان"۔(25)
"اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی ( تقلید شخصی) کا رواج ہوا، اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خاص مجتہد  کے مذہب پر اعتماد نہ کرتے ہوں اور اس زمانہ میں یہی ضروری تھا”۔
دور تابعین میں بلاد اسلامیہ میں دو علمی مراکز نمایاں ہوئے:
 پہلا مرکز مدینہ منورہ تھا، جہاں حضرت عمرؒ، حضرت عثمان ؒ، حضرت ابن عمرؒ، حضرت عائشہؒ، حضرت ابن عباس ؒ، حضرت زید بن ثابت ؒ اور ان کے بعد ممتاز تابعین کی روایات، آراء اور اقوال لائق اختیار قرار پائے اور عالم مدینہ حضرت امام مالک (م- 179ھ) اس سرمائے کے امین اور علمبردار  ہوئے۔
دوسرا مرکز عراق کا شہر کوفہ تھا۔جہاں تین سو سے زائد علماء صحابہ کرام تشریف لائے تھے اور بالخصوص حضرت عبد اللہ بن مسعود  اور ان کے اصحاب، حضرت علیؒ، حضرت شریح، حضرت شعبی ؒ، حجرت ابراہیم نخعیؒ کے فتاویٰ اور فیصلوں کو ترجیحی طور پر اختیار کیا گیا۔ اس سرمایہ علم و درایت کے علمبردار حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ( مـ150ھ) ہوئے۔
حضرت امام شافعی ؒ (م-204ھ) اس وقت تشریف لائے جب حنفی اور مالکی مسالک کے اصول و فروع کی ترتیب کا دور آغاز تھا۔ انہوں نے دونوں مسالک کی بنیادوں پر نظر ڈالی  اور ان سب کی روشنی میں اپنے اصول و فروع  متعین فرمائے۔
حضرت امام احمد بن حنبل  ( م- 241ھ) کا دور  آیا۔ جغرافیائی اعتبار سے  ان کا مرکز عراق کا شہر بغداد رہا، اور علمی انتساب امام شافعی ؒ سے حاصل ہوا،  رحجان روایت حدیث کے علمبردار ہوئے۔
چنانچہ ان آئمہ مجتہدین کی فقہ  اوراق میں مدون ہونے لگیں اور معین مجتہدین کے مذہب کو اختیار کرنے کا رحجان پیدا ہوا۔ ابتداء میں کئی فقہاء کے مذاہب موجود تھے۔لیکن وہ شہرت عام اور بقائے دوام حاصل نہ کر سکے اور رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ مختلف اسباب کے نتیجہ میں ناپید اور ختم  ہوگئے  ،اور صرف  چار فقہی مسالک ،مالکی ،حنفی، شافعی اور حنبلی باقی رہ گئے۔(26)
یہ  مذاہب اربعہ کتابی شکل میں مدوّن ہوکر تمام ممالک اسلامیہ میں پھیل گئے، اور عام طور پر رائج ہوگئے۔اس وقت سے  ان مذاہب میں تقلید کا انحصار ہوگیا اور ان کی تقلید شخصی کے سلسلہ میں کسی کو  اختلاف نہ رہا، بلکہ اس کے خلاف    کرنے  کو سواد اعظم سے فرار اور انحراف کے مترادف سمجھا جانے لگا۔
چنانچہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
"ولما اندرست مذاھب الحقۃ الا ھذہ الاربعۃ کان اتباعا للسواد الاعظم والخروج عنھا خروجھا عن السواد الاعظم"۔(27)
"۔ چونکہ ان مذاہب اربعہ کے سوا تمام مذاہب حقہ فنا ہو چکے ہیں اس لئے ان کا اتباع ہی سواد اعظم کا اتباع  قرار پایا، اور ان چاروں  سے  نکلنا سواد اعظم سے نکلنے کے مترادف ٹھہرا"۔
حضرت شاہ صاحب  اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان مذاہب اربعہ میں تقلید شخصی کے انحصار اور جواز تقلید پر اجماع امت ہے، اور یہ قوی ترین دلیل ہے:
" ان ھذہ المذاھب الاربعۃ المدونۃ  المحررۃ قد اجتمعت الامۃ۔ او من یعقد بہ منھا علی جواز تقلیدھا الی یومنا ھذا۔ وذالک من المصالح مالا یخفیٰ لاسیما فی ھذہ الایام  التی قصرت فیھا الھم جدا و اشربت النفوس الھویٰ و اعجب  کل ذی رای برایہ"۔ (28)
" بے شک پوری امت  یا اس کی غالب اکثریت  نے ان چاروں مدون اور تنقیح شدہ  مسالک کی تقلید کے جواز پر اجماع کر رکھا ہے، اور اس تقلید کی مصلحتیں پوشیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر اس زمانے میں جس میں ہمتیں بہت پست ہوگئی ہیں  اور انسانی نفوس خواہشات میں مبتلا ہوگئے ہیں اور صاحب رائے اپنی رائے میں خوش اور مست ہے"۔
حضرت شاہ صاحب  " عقد الجید " میں  مذاہب اربعہ پر امت کے مکمل اعتماد کا  ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"  ولیس مذھب  فی ھذہ الازمنۃ المتاخرۃ بھذہ الصفۃ  الا ھذہ المذاھب الاربعۃ "۔(29)
" اور اس آخری زمانہ میں مذاہب اربعہ کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس پر اعتماد کیا جائے اور وہ ان صفات کا حامل ہو جو کہ مذاہب اربعہ میں ہیں"۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں لوگ کسی ایک معیّن مذہب کی تقلید ( شخصی) پر مجتمع نہیں تھے۔ دوسری صدی کے بعد  ایک مجتہد کو معین کر کے اس کے مذہب پر عمل کرنے کا رواج ہوا۔اور چوتھی صدی میں  مذاہب اربعہ( مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی)کی تقلید(شخصی)پر امت کا اجماع ہوگیا۔
اس پر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ  یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چیز صحابہ و تابعین کے عہد میں تو ضروری نہ ہو ، پھر بعد میں اسے ضروری قرار  دےدیا جائے؟ اس شبہ کا تسلی بخش جواب دیتے ہوئے   حضرت شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
" قلت:الواجب الاصلی ھو ان یکون فی الامۃ من یعرف الاحکام الفرعیۃ من ادلتھا التفصیلیۃ اجمع علی ذالک اھل الحق و مقدمۃ الواجب واجبۃ ، فاذا کان للواجب طرق متعددۃ وجب تحصیل طریق من تلک الطرق من غیر تعیین،واذا تعین لہ طریق واحد وجب ذالک الطریق بخصوصہ ، کما اذا کان الرجل فی مخمصۃ شدیدۃ یخاف منھا الھلاک ، وکان لدفع مخمصۃ طرق من شراء الطعام، والتقاط الفواکھ من الصحراء، واصطیاد ما یتفوت بہ،وجب تحصیل شیئ من ھذہ الطرق، لا علی التعین، فاذا وقع فی مکان لیس ھناک صید، ولا فواکہ، وجب علیہ بذل المال فی شراء الطعام،و کذالک کان للسلف طرق فی تحصیل ھذا الواجب، وکان الواجب تحصیل طریق من تلک الطرق لا علی التعین، ثم انسدت تلک الطرق الا طریقا واحدا،فوجب ذالک الطریق بخصوصہ ، وکان السلف لا یکتبون الحدیث ، ثم صار یومنا ھذا کتابۃ الحدیث واجبۃ،لان روایۃ الحدیث لا سبیل لھا الیوم الا بمعرفۃ ھذہ الکتب۔
وکان السلف لا یشتغلون بالنحو واللغۃ وکان لسانھم عربیا لا یحتاجون الی ھذہ الفنون، ثم صار یومنا ھذا معرفۃ اللغۃ العربیۃ واجبۃ لبعد العھد عن العرب الاول، و شواھد ما نحن فیہ کثیرۃ جدا۔ وعلی ھذا ینبغی ان یقاس وجوب التقلید لامام بعینہ ، فانہ قد یکون واجبا وقد لا یکون واجبا"۔(30)
" اس اعتراض کے جواب میں میری گزارش یہ ہے کہ اصل میں تو واجب یہ ہے کہ امت میں ایسے افراد موجود ہوں جو شریعت کے فروعی احکام کو تفصیلی دلائکل کے ساتھ جانتے ہوں۔( تاکہ لوگ ان سے مسائل معلوم کر کے عمل کر سکیں) اس بات پر اہل حق کا اجماع ہے۔ لیکن واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے، لہذا اگر کسی واجب کی ادائیدگی کے متعدد طریقے ہوں ، تو ان طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ کو اختیار کر لینے سے واجب کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر واجب پر عمل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہو تو خاص اسی طریقہ  کا حاصل کرنا بھی واجب ہو جاتا ہے۔ مثلا  ہمارے  اسلاف  حدیث نبوی کو لکھتے نہیں تھے، لیکن ہمارے زمانے میں  احادیث کا لکھنا واجب ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ روایت حدیث  کی اس کے سوا کوئی اور سبیل نہیں رہی کہ انہی کتابوں کی طرف مراجعت کی جائے۔ اسی طرح  ہمارے اسلاف صرف نحو اور لغت کے علوم میں مشغول نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ ان کی مادری زبان ہی عربی تھی، وہ ان فنون  کے محتاج نہیں تھے۔لیکن ہمارے زمانے میں عربی  زبان کا علم حاصل کرنا  واجب ہو گیا ہے۔اس لئے  کہ ہم ابتدائی اہل عرب سے بہت دور ہیں۔ اس کے شواہد اور بھی بہت سے ہیں ( کہ زمانہ کے تغیر سے ایک چیز پہلے واجب نہ ہو اور بعد میں واجب ہو جائے) اسی پر کسی معین امام کی تقلید( شخصی )کو قیاس کرنا چاہیے، یہ کبھی واجب ہوتی ہے اور کبھی واجب نہیں ہوتی"۔

شاہ صاحب کے نزدیک تقلید کا جواز:
            جہاں تک نفس تقلید کا تعلق ہے، شاہ صاحب اس کے جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ تقلید کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" جو شخص صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مانتا ہو ، اور صرف  اسے حلال و حرام سمجھتا ہو جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال و حرام قرار دیا ہو، لیکن اسے یہ نہ معلوم ہو  کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا اور اسے  کلام نبوی سے استنباط  مسائل کا طریقہ معلوم نہ ہو؟ وہ کسی عالم راشد کی اتباع یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ  جو کچھ وہ کہتا ہے یا جو فتوی دیتا ہے وہ درست ہے  اور وہ رسول اللہ ﷺ کا متبع بھی ہے۔لیکن جب وہ اپنی قائم کردہ رائے کے خلاف  دیکھتا ہے( یعنی کوئی اسے دلیل میسر آجاتی ہے) تو بغیر کسی جدل و اصرار کے فورا اس کی تقلید ترک کر دیتا ہے۔تو اس قسم کی تقلید کا کوئی کیسے انکار کر سکتا ہے؟ حالانکہ افتاء اور استفتاء کا  یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے مسلمانوں کے درمیان چلا آرہا ہے"۔(31)  

شاہ صاحب کے نزدیک  تقلید فطری تقاضا  بھی ہے:
            شاہ صاحب کے نزدیک  تقلید ایک فطری مظہر ہے ، جس کے جواز پر صرف امت  اسلامیہ ہی  کا اتفاق نہیں، بلکہ دنیا کی ساری قومیں اس پر عمل کرتی ہیں۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"  قد اتفقت الامۃ علی صحتہ  قرنا بعد قرن  بل االامم کلھا  اتفقت علی مثلہ
 فی شرائعھم(32)
" تقلید کے درست ہونے پر ہر زمانے میں امت اسلامیہ کا اتفاق رہا ہے، بلکہ اپنی اپنی شریعت میں ہر قوم تقلید جیسے نظام پر اتفاق کرتی ہے "۔
ایک مقام پر آپ نے مذاہب اربعہ کی تقلید( شخصی)  کو الہامی راز قرار دیا ہے۔ چنانچہ   " الانصاف فی بیان سبب الاختلاف  " میں فرماتے ہیں:
" وبالجملۃ فالتمذھب للمجتھدین سر الھمہ اللہ تعالی العلماء و جمعھم علیہ من حیث یشعرون ولا یشعرون "۔ (33)
" خلاصہ کلام یہ ہے کہ آئمہ مجتہدین کی تقلید ایک راز ہے جسے اللہ تعالی نے  علماء  کے دلوں میں  ڈال دیا ہے اور انہیں اس پر جمع کر دیا ہے۔خواہ انہیں اس کا شعور ہوا ہو یا نہ ہوا ہو"۔

شاہ صاحب کے نزدیک  جو شرائط اجتہاد کا جامع نہیں ،اس پر تقلید واجب ہے:
            اپنی کتاب " عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید " میں امام بغوی کے حوالہ سے نقل کیا ہے:
" ویجب علی من لم  یجمع  ھذہ الشرائط  تقلیدہ"۔ (34)
" جو شرائط اجتہاد کا جامع نہیں  اسے پیش آمدہ مسائل میں تقلید واجب ہے"۔

مذاہب اربعہ کو اختیار کرنے کی تاکید اور انہیں چھوڑنے کی ممانعت:

            شاہ صاحب اپنی کتاب  " عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید " میں باب سوم کا یہ عنوان قائم کیا ہے:
" تاکید الاخذ بھذہ المذاھب الاربعۃ  والتشدید فی ترکھا والخروج عنھا"۔(35)
" ان چاروں مذاہب کو اختیار کرنے کی تاکید  اور انہیں چھوڑنے اور ان سے باہر نکلنے کی ممانعت"۔
اس باب کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں:
اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاھب الاربعۃ مصلحۃ عظیمۃ و فی الاعراض عنھا کلھا مفسدۃ کبیرۃ و نحن بین ذالک بوجوہ"۔ (36)
" جان لو! ان چار مذاہب  کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے، اور ان سب سے رو گردانی کرنے میں بڑی خرابی اور فساد ہے۔ اسے ہم چند وجوہ کے ساتھ بیان کریں گے"۔

1 : مذاہب اربعہ اختیار کرنے میں عظیم مصلحت :
            شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت کا علم  سلف پر اعتماد کے بغیر نہیں ہو سکتا اور پوری اسلامی تاریخ میں ہر دور کے اہل علم نے  اپنے سے ماقبل دور کے سلف پر اعتماد کیا ہے اور اسی سلسلہ  سے شریعت ہم تک پہنچی ہے۔ اس لئے مذاہب اربعہ  کی پیروی میں عظیم الشان  مصلحت  خیال کرتے ہیں اور ان کو چھوڑنے  میں بہت بڑا فساد  سمجھتے ہیں۔
  احدھا ان الامۃ اجتمعت علی ان یعتمدوا علی السلف  فی معرفۃ  الشریعۃ  فالتابعون اعتمدوا فی ذالک علی الصحابۃ و تبع التابعین علی اعتمدوا علی التابعین وھکذا فی کل طبقۃ اعتمدوالعلماء علی من کان قبلھم والعقل یدل علی حسن ذالک لان الشریعۃ لا یعرف الا بالنقل والاستنباط والنقل لا یستقیم الا بان یاخذ کل طبقۃ عمن کان قبلھا بالاتصال ولا بد فی الاستنباط ان یعرف مذاھب المتقدمین لئلا یخرج من اقوالھم فیفرق الاجماع ولیبنی علیھا"۔(37)
 " امت کا اس پر اجماع ہے کہ وہ شریعت  کی معرفت میں سلف پر اعتماد کریں۔ اس لئے  اس معاملہ میں تابعین نے صحابہ پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔اور ان کے بعد یہی طریقہ قائم رہا کہ ہر طبقہ کے علماء نے اپنے سے سابق علماء پر اعتماد کرتے رہے۔ یہ طریقہ عقلا پسندیدہ ہے، اس لئے کہ شریعت کی معرفت یا تو  نقل کے ذریعے ہو سکتی ہےیا استنباط کے ذریعے۔ نقل کی صحیح صورت   اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر طبقہ اپنے ماقبل طبقہ سے متصل طور پر لے اور استنباط کے لئے ضروری ہے کہ متقدمین کے مذاہب معلوم ہو تاکہ کسی موقع پر ان کے اقوال سے خروج کی بنا پر فرق اجماع لازم نہ آئے  اور  تاکہ اپنے قول کی انہی کے اقوال پر بنا کریں"۔

2 : مذاہب اربعہ کا اتباع ،سواد اعظم کا اتباع ہے:
            مذاہب اربعہ کو اختیار کرنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"و ثانیا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  " اتبعوا سواد الاعظم " ولما اندرست مذاھب الحقۃ الا ھذہ الاربعۃ کان اتباعا للسواد الاعظم والخروج عنھا خروجھا عن السواد الاعظم"۔(38)
" رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ " سواد اعظم کی پیروی کرو "۔ چونکہ ان مذاہب اربعہ کے سوا تمام مذاہب حقہ فنا ہو چکے ہیں اس لئے ان کا اتباع ہی سواد اعظم کا اتباع ہوگا، اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہوگا"۔

3: قرون اولیٰ سے دوری:
            مذاہب اربعہ کو اختیار کرنے کی تیسری بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" و ثالثھا ان الزمان لما طال و بعد العھد وضیعت الامانات لم یجزان یعتمد علی اقوال علماء السوء من القضلۃ الجورۃ والمفتین التابعین لاھوائھم حتی ینسبوا ما یقولون الی بعض من اشتھر من السلف بالصدق والدیانۃ والامانۃ اما صریحا او دلالۃ و حفظ قولہ ولا علی قول من لا ندری ھل جمع شروط الاجتھاد او لا فاذا راینا العماء المحققین فی حفظ مذاھب السلف عسیٰ ان یصدقوا فی تخریجاتھم علی اقوالھم واستنباطھم من الکتاب والسنۃ واما اذا لم نرعنھم ذالک فھیھات و ھذا المعنی الذی اشار الیہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حیث قال یھدم الاسلام جدال المنافق بالکتاب وابن مسعود رضی اللہ عنہ حیث قال من کان متبعا فلیتبع من مضیٰ"۔(39)
" یہ زمانہ چونکہ عہد رسالت ﷺ سے دور ہے اور امانتیں ضائع ہونے لگی ہیں ۔ اس لئے   یہ جائز نہیں کہ علماء سوء ظالم قاضیوں یا ان مفتیوں کے اقوال پر اعتماد کیا جائے جو اپنی خواہشات نفسانی کے غلام ہیں۔ تاوقیکہ وہ اپنی بات کو صریحا یا دلالۃ سلف میں سے کسی ایسے شخص کی طرف منسوب نہ کریں جو صدق ، امانت اور دیانت میں مشہور ہو چکا ہو۔اور اس کا یہ قول محفوظ ہو۔ اور نہ اس کے قول پر اعتماد جائز ہے جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ وہ اجتہاد کی شرائط کا جامع نہیں ہے۔اب جب ہم علماء کو دیکھیں کہ وہ مذہب سلف میں ثابت قدم ہیں تو ان کے اقوال سلف سے تخریجات یا ان کے خود کتاب و سنت سے استنباط میں تصدیق کی جا سکتی ہے، اور جب ہم علماء میں یہ بات نہیں دیکھتے تو ان کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔اس معنی کی طرف حضرت عمر  بن خطابؒ نے اشارہ فرمایا کہ " منافق کا قرآن سے جھگڑنا اسلام کی دیواروں  کو متزلزل کردے گا"، اور ابن مسعود ؒ نے فرمایا " جس کو اتباع کرنی ہے سلف کی اتباع کرے"۔
حوالہ جات:
1۔ابن قدامہ المقدسی،عبداللہ بن احمد، روضۃ الناظر وجنۃ المناظر ( مؤسسۃ الریان،بیروت،1419ھ)ص:380۔
2۔بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع البخاری  ( کتاب النکاح ،باب استعارۃ الثیاب للعروس) (دار ابن کثیر،بیروت،2002ء) 
3۔التھانوی،محمد علی،قاضی، کشف اصطلاحات الفنون والعلوم  ( مکتبہ لبنان،بیروت، 1996) ص: 500۔
4۔الغزالی،ابوحامد محمد بن محمد ، المستصفیٰ من علم الاصول (الجامعۃ الاسلامیہ ، مدینہ منورہ )4/139۔
5۔ روضۃ الناظر وجنۃ المناظر:1/1/243۔
6۔  عقد الجید ،ص: 40۔
7۔النساء (4): 59۔
8۔رازی، فخرالدین ، التفسیرالکبیر ( دارالفکر،بیروت،1981ء)10/147۔
9۔النساء(4):83۔
10۔رازی، فخرالدین ، التفسیرالکبیر( دارالفکر،بیروت،1981ء)10/206۔
11۔النحل (16):43۔
13۔سنن ابوداؤد، کتاب الطہارۃ،باب فی المجروح یتیمم(دارالحضارۃ للنشر، الریاض،1436ھ) رقم: 336۔
14۔ترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، جامع الترمذی،کتاب المناقب،باب ابی بکر و عمر( دارالحضارۃ للنشر،الریاض،1436ھ)رقم
15۔افریقی،جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور ،لسان العرب ، مادہ " قدا"( دار صادر،بیروت) مادہ " قدا"۔
16۔ ابن ماجہ، محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ،باب سنۃ الخلفا الراشدین(  قدیمی کتب خانہ ، کراچی،س۔ن) ص:5۔
17۔شیخ عبد الغنی ،انجاح الحاجہ علی ابن ماجہ (قدیمی کتب خانہ ، کراچی،س۔ن)  ص : 5
18۔ عقدالجید ،ص:38
19۔صحیح البخاری،کتاب الفرائض ، باب میراث ابنۃ  ابن مع ابنتہ ،رقم الحدیث:6736۔
20۔ صحیح البخاری ، کتاب الحج، باب  اذا حاضت المراۃ بعد ما افاضت، رقم الحدیث:1758۔
21۔عینی،بدرالدین ابومحمد محمود، عمدۃ القاری، کتاب الحج،باب  اذا حاضت المراۃ بعد ما افاضت ( دارالفکر، بیروت،س-ن) 10/97۔
22۔بیہقی ، احمد بن حسین ،السنن الکبریٰ، کتاب الفرائض باب ترجیح قول زید (دارالکتب العلمیہ،بیروت،2003ء) رقم الحدیث:12189
23۔مالک بن انس،موطا امام مالک،کتاب البیوع، باب ما جاء فی الربا فی الدین( دار احیاء التراث،بیروت،1985ء) ص:672۔
24۔ الانصاف ،ص:30۔
25۔ الانصاف ،ص:70۔
26۔دہلوی، شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ(دارالجیل للنشر والطباعۃ،بیروت،2005ء) 1/248۔
27۔عقد الجید، ص:41۔
28۔دہلوی، شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ  (دارالجیل ،بیروت،2005ء)1/263
29۔عقدالجید،ص:41۔
30۔ الانصاف، ص: 79۔
31۔عقدالجید، ص:46۔
32۔ ایضا، ص:67۔
33۔الانصاف، ص: 73۔
34۔ عقدالجید ،ص:23۔
35۔ایضا،ص:40۔
36۔ایضا،ص:40۔
37۔ایضا،ص:40۔
38۔ایضا،ص:40۔
39۔ایضا،ص:40۔

1 comments:

zaib نے لکھا ہے کہ

جزاک الله عنا وعن سائر المسلمین الی یوم الدین

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔