pati

بلاگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے .بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ،

Thursday, 9 April 2020

نظریہ اجتہاد و تقلید میں اعتدال کی راہ

شاہ ولی اللہ کےنظریہ اجتہاد و تقلید  میں اعتدال کی راہ

اعتدال و میانہ روی ، دین اسلام کی ایسی  عظیم خوبی ہے جو اس کے ہر معاملہ  اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔اعتدال و میانہ روی  کا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام وامور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، یعنی نہ شدت ہو ، نہ ازحد کوتاہی۔جب  دین اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ایسی ہے جو اس کو تمام ادیان سے منفرد و ممتاز بناتی ہے، تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبرا  رہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وکذالک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا۔  (1)
" اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ، اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ  ہو جائیں"
امام ابن جریر طبری  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"واری ان اللہ تعالی ذکرہ انما وصفھم بانھم " وسط " لتوسطھم فی الدین،فلا ھم اھل غلو فیہ، غلوالنصاریٰ الذین غلو بالترھیب و قیلھم فی عیسیٰ ما قالوا فیہ، ولا ھم اھل تقصیر فیہ تقصیر الیھود الذین بدلوا کتاب اللہ و قتلوا انبیائھم وکذبوا علی ربھم و کفروا بہ، ولکنھم اھل توسط و اعتدال فیہ فوصفھم اللہ بذالک ، اذا کان احب الامور الی اللہ اوسطھا"   (2)
" میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو "امت وسط"کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں، نہ تو ان کے ہاں نصاریٰ جیسا غلو ہے جنہوں نے رہبانیت کی دعوت دی اور عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں انتہا پسندی پر مبنی باتیں کہیں، اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تبدیلی پیدا کر ڈالی، انبیاء کا قتل کیا ، اپنے رب پر جھوٹ باندھا اور اس کے ساتھ کفر  اختیارکیا۔ لہذا اللہ تعالی نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کو اعتدال و میانہ روی پسند ہے"۔
اسلام کا مزاج اعتدال اور میانہ روی کا ہے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی ہر معاملہ میں اعتدال و توسط اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ان الدین یسر ولن یشادالدین احد الا غلبہ، فسددوا و قاربوا وابشروا، واستعینوا بالغدوۃ والروحۃ و شیء من الدلجۃ۔  (3)
" دین آسان ہے، اور جو دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا، تو ٹھیک ٹھیک چلو، قریب قریب رہو، خوش خبری لو، صبح و شام سے مدد لو اور کچھ رات کے آخری پہر سے"۔

وفی روایۃ القصد القصد تبلغوا"    (4)
 ایک روایت میں ہے ، درمیانی راہ اختیار کرو منزل پر پہنچ جاؤگے"
دین اسلام کے اس مزاج سے اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔آپ کے مزاج و فکر میں طبعی اعتدال موجود تھا۔چنانچہ انہوں نے امت مسلمہ کو جن میدانوں میں راہ اعتدال کی نشاندہی کی ہے  ، ان میں ایک اجتہاد و تقلید کا مسئلہ بھی ہے۔اس موضوع پر  آپ کے دو رسالے " عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید " اور " الانصاف فی سبب بیان الاختلاف " بڑے بصیرت افروز اور چشم کشا ہیں۔ اسی طرح " حجۃ اللہ البالغہ " میں اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے  وہ علمی ، تحقیقی اور فکری اعتدال کا عظیم شاہکار ہے۔

نظریہ اجتہاد میں راہ اعتدال:
شاہ صاحب کے دور میں ایک طبقہ ایسا تھا جو اجتہاد سے گریزاں تھا  اور تقلید جامد پر مصر تھا۔فقہی جزئیات کو نصوص کتاب و سنت کا درجہ دے رکھا تھا۔ جبکہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس تقلید کو ممنوع قرار دے رہا تھا۔آپ نے اس باب میں اعتدال کی راہ دکھائی  اور اجتہاد و تقلید کے حدود متعین کئے، اور اس حقیقت کو واضح کیا کہ اجتہاد ممنوع نہیں بلکہ اس کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ہر دور میں ایسے باصلاحیت لوگ پیدا ہونگے جو اجتہادی عمل کو جاری رکھیں گے۔آپ نے اجتہاد کو ہروقت اور ہر دور کے لئے ضروری قرار دیا ہے:
"امت را ہیچ وقت از عرض مجتہدات بر کتاب و سنت استغنا حاصل نیست"
" امت کے لئے کبھی بھی وہ وقت نہیں آئے گا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کی ضرورت نہ ہو"(5)
اجتہاد کے بارے میں شاہ صاحب کا نظریہ  ہے کہ  اجتہاد کا باب مسدود نہیں بلکہ اجتہاد  ہر زمانے میں فرض کفایہ ہے، اور ہر زمانے میں کم از کم کسی مجتہد منتسب کا ہونا ضروری ہے۔ جمہور علماء کی طرح  شاہ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں  کہ تیسری صدی ہجری کے بعد کوئی مجتہد مستقل پیدا نہیں  ہوا، لیکن اجتہاد منتسب کو  ہر دور کے لئے فرض کفایہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
" منتسب وھو باق الیٰ ان یاتی اشراط الساعۃ الکبریٰ، ولا یجوز انقطاعہ شرعا لانہ فرض کفایۃ، ومتی قصر اھل عصر حتیٰ ترکوہ اٰثما کلھم"   (6)
" اجتہاد منتسب باقی ہے ،اور آثار قیامت نمودار ہونے تک باقی رہے گا۔ اس کا کسی زمانے میں موقوف ہونا شرعا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ فرض کفایہ ہے۔اگر کسی زمانے میں مسلمان ایسا اجتہاد کرنے سے پہلوتہی کرنے لگیں ،یہاں تک کہ چھوڑ دیں تو سب گناہ گار ہوں گے"۔
چونکہ اجتہاد ایک اہم اور نازک ذمہ داری ہے اس لئے ہر کس و ناکس کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتے، اجتہاد کے عمل کو  ہر کس و ناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لئے ، آپ نے اس کی شرائط، اصول و قواعد ، اہلیت و صلاحیت کا معیار طے کیا تاکہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح  اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہء اطفال بننے کی بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری و عملی راہنمائی کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو۔چنانچہ انہوں نے  زہد و تقویٰ،خوف و خشیت اور اخلاص و للٰہیت کے ساتھ   علوم پنجگانہ پر کامل دستگاہ  کو اجتہاد کی  ضروری شرط قرار  دی ہے۔ ایسے اجتہاد کو باطل سمجھتے ہیں جو اجماع امت کے خلاف ہو۔اس لئے اجتہاد کرنے والے کے لئے اجماعی اور غیر اجماعی مسائل کی شناخت  ضروری قرار دیتے ہیں، تاکہ مجتہد کوئی ایسا قول اختیار نہ کر لے جو اجماع کے خلاف ہو۔
آگے چل کر شاہ صاحب فرماتے ہیں جو ان علوم  پنجگانہ جو اجتہاد کے لئے ضروری ہیں سے واقف نہیں یا ان میں مہارت نہ رکھتا ہو  تو اس کے لئے تقلید کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے:
"ویجب علی من لم یجمع ھذہ الشرائط  تقلیدہ" (7)
"جس شخص میں اجتہاد کی شرائط موجود نہ ہوں ،اس پر تقلید واجب ہے"۔
شاہ صاحب کے نزدیک تجزی اجتہاد بھی درست ہے، یعنی  جو شخص جس قدر اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے ، اسے شرعی مسائل کے حل کے لئے اجتہاد کرنا چاہئے  گو ایک مسئلہ میں بھی اجتہاد کی صلاحیت ہو۔اس مسئلہ میں وہ اجتہاد سے کام لے اور سہل پسندی اپناتے ہوئے صرف تقلید پر قانع  نہ بنا رہے۔
شاہ صاحب کی یہ رائے انتہائی معتدل ہے، کیونکہ رواں دواں زندگی کے ساتھ شریعت اسلامی کو ہم آہنگ رکھنے کے لئے نئے مسائل کا حل پیش کرنا ، اور حالات زمانہ پر مسائل کو منطبق کرنا ضروری  امرہے، اور یہ امر اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

تقلید میں میانہ روی:
تقلید کے بارے شاہ صاحب نے جو طریقہ اختیار کیا ہے یا اس کی جو تعبیر کی ہے وہ روح شریعت سے قریب تر، قرن اول کے عمل سے ہم آہنگ ،فطرت انسانی اور عملی زندگی کے عین مطابق اور سازگار ہے۔تقلید کے باب میں  انہوں نے معتدل راہ ا ختیار کرتے ہوئے نفس تقلید کو درست قرار دیا ہے۔ تقلید کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کسی عالم راشد کی اتباع اس جذبہ و اعتقاد کے ساتھ کی جاتی ہے  کہ آئمہ و مجتہدین کوقرآنی دانی اور سنت فہمی میں خاص دسترس حاصل ہے۔ انہوں نے  جو بھی رائے  قائم کی ہے  وہ کتا ب و سنت کی روشنی میں پوری دیانت و امانت کے ساتھ قائم کی ہے۔ اس عمل میں انہوں نے  ذاتی مفاد و خیانت سے کام نہیں لیا ہے، اسی اعتماد پر بحیثیت شارح قانون و ترجمان شریعت  ان کی بات مانی جاتی ہے۔جو شخص  خود یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ کسی مسئلہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا حکم جان سکے  ، وہ کسی قابل اعتماد عالم سے پوچھ لیتا ہے کہ اس سلسلہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول کا کیا حکم ہے۔ یہ طریقہ  افتاء و استفتاء نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  کے زمانہ  مبارک  سے مسلمانوں کے درمیان چلا آرہا ہے۔

تقلید کی حقیقت: 
شاہ ولی اللہ  کے نزدیک تقلید کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کا اندازہ درج ذیل عبارت سے لگایا جاسکتا ہے:
"سب کو معلوم ہے کہ استفتاء اور افتاء کا  سلسلہ عہد نبوی سے برابر چلتا آرہا ہے،اور ان دونوں میں کیا  فرق ہے کہ ایک آدمی ہمیشہ  ایک سے فتویٰ لیتا ہے ، یا کبھی ایک سے لیتا ہے  اور کبھی دوسرے سے، ایسی حالت میں اس کا ذہن صاف ہے، اس کی نیت سلیم ہے اور وہ صرف اتباع شریعت چاہتا ہے۔ یہ بات کیسے جائز نہیں؟
جب کہ کسی فقیہ کے بارے ہمارا ایمان یہ نہیں ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر آسمان سے فقہ اتاری ہے،یا ہم پر اس کی اطاعت فرض کی ہے اور نہ یہ عقیدہ ہے کہ وہ معصوم ہے۔ان فقہاء اور آئمہ کی تقلید محض اس بناء پر کرتے ہیں کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم ہے۔اس کا قول  ( فتویٰ) دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں ہوگا۔ کتاب و سنت کے صریح حکم پر مبنی ہوگا یا استنباط کے اصولوں  میں سے کسی اصول کے مطابق اس سے مستنبط کیا ہوا ہوگا، یا اس نے قرائن سے یہ سمجھ لیا  ہوگا کہ یہ حکم فلاں علت کی وجہ سے ہے، اور اس کو اپنی ساری کوشش پر  اطمینان قلب حاصل ہوا ہوگا ۔اس بنیاد  پر اس نے غیر منصوص کو منصوص پر قیاس کیا۔اس کا یہ سارا عمل اس بات کا گواہ ہے گویا  وہ  زبان حال سے کہ رہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا  کہ جہاں یہ علت پائی جائے وہاں یہ حکم ہوگا۔او ریہ قیاسی مسئلہ  اس عموم اور کلیہ میں شامل ہے۔اس طرح اس حکم کی نسبت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جاسکتی ہے،لیکن ظنی طریقوں پر۔اگر یہ حالت نہ ہوتی تو کوئی صاحب ایمان کسی مجتہد کی تقلید نہ کرتا۔
اگر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  (جن کی اطاعت اللہ تعالی نے ہم پر فرض کی ہے) کی کوئی حدیث مبارکہ قابل وثوق سند سے پہنچے ، جو اس مجتہد یا امام کے فتویٰ کے خلاف ہو، اور ہم اس حدیث کو چھوڑ دیں اور ظنی طریقہ  کی پیروی کریں  تو ہم سے بڑھ کر ناروا طریقہ اختیار کرنے والا کون ہوگا، اور کل ہمارا خدا کے سامنے کیا عذر ہوگا؟"۔(8)

ایک دوسرے مقام پر آپ نے اس حقیقت کو  یوں بیان کیا ہے:
انما اتفق الناس علی تقلید العلماء علی معنی  انھم رواۃ الشریعۃ  عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وانھم علموا مالم نعلم وانھم اشتغلوا بالعلم مالم نشتغل فلذالک قلدوا العلماء  فلو ان حدیثا صح و شھد بصحۃ المحدثین و عمل  بہ طوائف فظھر فیہ الامر ثم لم یعمل بہ ھو لان متبوعہ لم یقل بہ فھذا ھو الضلال البعید "  (9)
 " لوگوں نے علماء کی تقلید کو  صرف اس لئے متفقہ طور پر قبول کیا کہ وہ  درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے راوی ہیں۔ علم ان کا  مشغلہ ہے اور وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں، اگر کوئی صحیح حدیث مل جائے  اور محدثین اس کی صحت کے  شاہد ہوں اور  لوگوں کی بڑی جماعت نے اس پر عمل بھی کیا ہو ، یہ سب کچھ واضح ہوجانے کے باوجود  اس پر  اس لئے عمل نہ کیا جائے کہ امام متبوع نے اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا ۔ یہ بہت بڑی گمراہی ہے"۔

عالم اور عامی کی تقلید میں فرق کی وضاحت:
شاہ صاحب کے نزدیک امت کے تمام افراد علمی صلاحیت میں یکساں نہیں ہیں۔ اس لئے  اجتہاد و تقلید کے معاملہ میں تمام لوگوں کے لئے حکم ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ آپ نے عامی اور عالم میں فرق واضح کیا اور ان کے حسب حال   مراتب اور درجہ بندی مقرر کی پھر اجتہاد و تقلیدکا حکم بیان کیا۔چنانچہ آپ عامی محض کے لئے تقلید کو واجب اور مجتہد کے لئے تقلید کو ناجائز  سمجھتے ہیں۔

تقلید میں جمود کی مذمت: 
                تقلید میں جمود اور غلو قابل مذمت ہے۔ لہٰذا  یہ اعتقاد رکھنا بد ترین غلو ہے کہ  صرف ہمارے امام کا مسلک حق ہے اور دوسرے  مجتہدین کے مذاہب  معاذاللہ باطل ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ  تمام مجتہدین  نے اجتہاد کی شرائط کو پورا کر کے قرآن و حدیث  کی صحیح مراد معلوم کرنے کی کوشش کی ہے ، اس لئے  تمام آئمہ کے مذاہب برحق ہیں ۔ اگر کسی سے کوئی اجتہادی غلطی  ہوئی ہے وہ عند اللہ معاف ہے ، بلکہ  کوشش صرف کرنے کی وجہ سے  مستحق ثواب  بھی ہیں۔اس لئے شاہ صاحب کے نزدیک تقلید کے لئے  یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک آدمی  جس امام کی تقلید  کر رہا ہے  ، اس کو باقی آئمہ سے افضل  بھی  یقین کرے ۔ یہاں پر آپ نے ایک مثال دے کر وضاحت کی ہے کہ:
" ان اعتقاد افضلیۃ الامام علی سائرۃ الائمۃ غیر لازمۃ فی صحۃ التقلید اجماعا، لان الصحابۃ والتابعین کانوا یعتقدون ان خیر ھذہ الامۃ ابوبکر ثم عمر رضی اللہ عنہما، و کانوا مقلدین فی کثیر من المسائل غیرھما بخلاف قولھما، و لم ینکرعلی ذلک احد وکان اجماعا علی ما قلناہ"  (10)
 " تقلید کے صحیح  ہونے میں یہ اعتقاد رکھنا بالاجماع ضروری نہیں ہے کہ میرا امام باقی آئمہ پر فضیلت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام اور تابعین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام امت  میں افضل ترین ابوبکر  اور پھر عمر رضی اللہ عنہما ہیں، اس کے باوجود بہت سے مسائل میں ان دونوں حضرات کی رائے کے خلاف دوسرے صحابہ کی تقلید کرتے تھے اور اس پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا، لہذا یہ مسئلہ اجماعی ہے"۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کا یہ بیان  ان کی وقت نظر اور وسیع الفکری کا شاہد بھی ہے اور افراط و تفریط کے  درمیان عدل اور اعتدال کی راہ بھی ہے۔
صریح دلائل   سامنے آجانے کے باوجود  تقلید پر  جمے رہنا شاہ صاحب کے نزدیک حرام ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
" والوجہ الثانی ان یظن بفقیہ انہ بلغ غایۃ القصویٰ فلا یمکن ان یخطی فہمھا بلغہ حدیث صحیح صریح بخلاف مقالتہ لم یترکہ او ظن انہ لما قلدہ کلفہ اللہ بمقالتہ وکان المحجور علیہ فاذا بلغہ حدیث واستیقن بصحتہ لم یقبلہ لکون ذمتہ مشغولۃ بالتقلید فھذا اعتقاد فاسد و قول کاسد لیس لہ شاہد من النقل والعقل" (11)
" تقلید کی  دوسری صورت یہ ہے کہ کسی فقیہ کے بارے میں اعتقاد رکھا جائے کی وہ علم کے آخری درجے کو پہنچ گیا ہے ، لہذا اس سے غلطی کا امکان نہیں۔، چنانچہ اگر اس کی رائے کے خلاف صحیح و صریح حدیث بھی آجائے تب بھی اس کی رائے ہی کو مقدم رکھے ، یا اس کا خیا ل ہو کہ خدا نے اس کو اسی امام کی رائے پر عمل کا مکلف بنایا ہے اور وہ مسلوب الاختیار شخص کی طرح ہے ، لہذا اس کو حدیث پہنچے جس کے صحیح ہونے کا اس کو یقین ہو ، پھر اس کو قبول نہ کرے کہ وہ تقلید کا پابند اور مکلف ہے تو یہ فاسد اعتقاد اور غیر صحیح قول ہے جو عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے"۔
حضرت شاہ صاحب ضروری سمجھتے تھے کہ عامۃ الناس  علماء کی اتباع کریں لیکن اس کو پیغمبر کی طرح معصوم عن الخطا   نہ سمجھیں۔آپ آئمہ کی جلالت و منزلت اور علمی وسعت کے باوجود ان پر اس قدر حسن ظن نہیں فرماتے  جس سے صحیح حدیث کو نظر انداز کرنے کی نوبت آجائے۔ایسے لوگوں پر سخت تنقید فرماتے ہیں:
" خضتم کل الخوض فی استحسانات الفقہاء من قبلکم و تفریعاتھم اما تعرفون ان الحکم ما حکمہ اللہ و رسولہ و رب انسان منکم یبلغہ حدیث من احادیث نبیکم فلا یعمل بہ و یقول انما عملی علی مذھب فلان لا علی الحدیث" (12)
" تمہاری پوری توجہ فقہاء کے استحصانات اور تفریعات کی طرف ہے اور تم نہیں جانتے کہ در حقیقت حکم تو اللہ تعالی   اور اس کے رسول کا ہے۔ تم میں بہت سے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پہنچ جاتی ہے لیکن وہ اسے اس لئے قابل عمل نہیں سمجھتا کہ اس کا  عمل فلاں مذہب پر ہے"
 عموما تقلید کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
" العمل بقول الغیر من غیر حجۃ"   (13)
" دلیل کے بغیر کسی کے قول پر عمل کرنا"
شاہ صاحب کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں کہ دلیل میں مطلق غور ہی نہ کیا جائے ،اور بالکل اس سے  سروکار نہ رکھا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ کہ اولا دلیل کا مطالبہ  نہ ہو  اور نہ عمل  دلیل پر موقوف ہو، بلکہ صرف حسن ظن کی بنیاد پر امام یا مفتی کی پیروی کی جائے ، اور اگر بعد میں دلیل معلوم ہو جائے  یا اسے تلاش کر لیا جائے  تو امام کے قول کو ترک کر دے اور دلیل پر عمل کرے۔
تقلید کے باب میں شاہ صاحب" من غیر حجۃ " کے مبداء سے بالکل اتفاق نہیں کرتے،وہ ہر ایک کے لئے ہر مرحلہ میں حسب استطاعت دلیل  کی تلاش و تتبع کو ضروری سمجھتے ہیں۔آپ  آنکھ بند کرکے کسی بھی دلیل کو ماننے سے بھی منع کرتے ہیں۔ اپنے اس رویہ کو تمام مسالک کے قدیم و جدید محققین علماء کا طرز عمل بتاتے ہیں۔شاہ صاحب کے نزدیک فتویٰ دینے کے لئے بھی دلیل کی معرفت ضروری ہے۔چنانچہ امام ابویوسف اور امام زفر وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
" لا یحل لاحد ان یفتیٰ بقولنا مالم یعلم من این قلنا" (14)
 " کسی کو بھی ہمارے قول پر فتویٰ دینا اس وقت تک جائز نہیں ، جب تک اسے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ ہم نے کس دلیل سےوہ بات کہی ہے"

شاہ صاحب نے چار قسم کے لوگوں کی تقلید کو حرام قرار دیا ہے:
شاہ صاحب نے "عقدالجید "میں ابن حزم ظاہری کا تقلید کے متعلق مؤقف  نقل فرمایا ہے کہ اس کے نزدیک تقلید حرام ہے۔
ابن حزم کی رائے پر  آپ نے جو محاکمہ کیا ہے  وہ نہ صرف یہ کہ بہت مدلل ہے بلکہ بےحد منطقی  اور متوازن بھی ہے۔ابن حزم کے  مؤقف   کے جواب میں آپ نے واضح انداز میں یہ بات کہی ہے کہ ابن حزم نے تقلید اور اطاعت میں فرق نہیں کیا بلکہ تقلید کو اطاعت رسول کی سطح پر رکھ کر تقلید کا رد کیا ہے اور تقلید کو حرام قرار دیا ہے۔حالانکہ صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔آپ نے واضح کیا کہ ابن حزم نے جو کچھ کہا ، اس کس کے مصداق  درج ذیل افراد ہو سکتے ہیں:
1۔ وہ شخص جسے اجتہاد میں کسی قدر اہلیت حاصل ہو، خواہ کسی ایک مسئلہ میں بھی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"ممن لہ ضرب من الاجتہاد ولو فی مسئلۃ واحدۃ "(15)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے نزدیک جو تمام مسائل میں مجتہد ہو اس کے لئے تمام مسائل میں ، جو کسی ایک مسئلہ میں اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اسے اس ایک مسئلہ میں کسی دوسرے کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔
2۔ وہ شخص جس پر یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم نے فلاں بات کا حکم دیا ہے، یا فلاں بات سے منع کیا ہے، اور یہ امر یا نہی منسوخ بھی نہیں ہے۔ ماہر علماء کے ایک جم غفیر کو اس قول کی حمایت میں پایا ہے اور اس کی مخالفت میں اس کے پاس قیاس اور استنباط کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
3۔ وہ عامی جو کسی معین فقیہ کی تقلید کرتا ہے، اور اپنے امام سے صدور خطا کو محال سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔اپنے دل میں یہ طے کر لے کہ امام کے خلاف کیسی دلیل ہی کیوں نہ مل جائے وہ اس کی تقلید نہیں چھوڑے گا۔
شاہ صاحب نے ایسے شخص کو اس حدیث کا مصداق بنایا ہے جسے امام ترمذی نے اپنی جامع کی کتاب التفسیر میں اللہ تعالی کے اس فرمان" واتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا  من دون اللہ  "کے ضمن میں  حضرت عدی بن حاتم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"انھم لم یکونوا یعبدونھم ولکنھم کانوا اذا احلوا لھم شیئا استحلوہ واذا حرموا علیھم شیئا حرموہ "۔(16)
"وہ اپنے مذہبی پیشواؤں کی عبادت نہیں کرتے تھے۔لیکن جس چیز کو وہ ان کے لئے حلال قرار دیتے تھے اسے حلال سمجھتے تھے۔ اور جس چیز  کو ان پر حرام کر دیتے  اس کو حرام سمجھتے تھے"۔
4۔ وہ شخص  جو اس بات کو درست نہ سمجھتا ہو کہ کوئی حنفی کسی شافعی سے، یا کوئی شافعی کسی حنفی سے مسئلہ دریافت کرے۔یا کوئی حنفی کسی شافعی  امام کی تقلید کرے۔ یہ جامد تقلید اس لئے حرام ہے کہ اس شخص نے قرون اولیٰ کے اجماع اور تابعین کی مخالفت کی ہے۔(17)

ایک  فقہی مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف عدول :
ایک شخص  فقہ حنفی کا مقلد ہے ، ایک عرصہ بعد وہ فقہ حنفی چھوڑ کر فقہ مالکی یا فقہ شافعی کی تقلید کر سکتا ہے؟
اس بارے شاہ صاحب نے  سب سے پہلے امام ابو شامہ کی رائے نقل کی ہے کہ:
" جو شخص فقہ کے مطالعہ میں مشغول ہے اور اس کے اصول پر اس کی نظر ہے ، اس کے لئے اجازت ہے کہ  وہ کسی ایک امام مجتہد کے مسلک پر اقتصار نہ کرے بلکہ ہر مسئلہ میں جو دلالت کتاب  اور سنت محکمہ سے قریب تر ہو اس کی صحت کا اعتقاد رکھے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ متعلقہ علوم پر اس کی نظر وسیع اور گہری ہو اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے  کی تعصب اور طریق اختلاف میں غور کرنے سے گریز کرے۔یہ چیزیں وقت کو  ضائع کرنے والی اور طبیعت کو مکدر کرنے والی ہیں"۔(18)
اس کے بعد عزالدین بن عبدالسلام کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
" اسلام کے عہد  اول میں لوگوں کا یہ طریقہ رہا کہ وہ کسی خاص فقہی مسلک کا تعیین کئے بغیر ہر عالم سے سوال کرتے اور فتویٰ لیتے تھے۔اور اس بارے کوئی کسی پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ فقہی مسالک قائم ہوگئے ، ان کے مقلدین میں بعض نے تعصب کی راہ  اپنالی وہ اپنے معیین امام کی  پیروی کرتے ہیں چاہئے اس کا فقہی مسلک اور رائے دلائل سے دور ہی کیوں نہ ہو، گویا وہ اس امام کو نبی اور رسول سمجھتے ہیں ، تعصب کی یہ راہ حق سے بہت دور ہے ، کوئی بھی صاحب  عقل  اس رویہ اور طرز عمل کو پسند نہیں کرتا"۔(19)
ان اقتباسات کو نقل کرنے کے بعد شاہ صاحب اپنا  نقطہ نظر بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
" میں ایک مجتہد کے فقہی مسلک اور رائے کو  چھوڑ کر دوسرے امام کے فقہی مسلک کو اختیار کرنے کی اجازت صرف اس  صورت میں  جائز سمجھتا ہوں جب کہ اس کی اس تبدیلی سے کوئی عدالتی فیصلہ متاثر نہ ہو"۔(20)
شاہ صاحب کی یہ رائے بہت معتدل اور حکیمانہ ہے ، اور اس سے  یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ شاہ صاحب کی نگاہ اس صورت حال پر ہے جب ملک میں اسلامی قانون نافذ ہو۔ ایسی صورت میں اکثر لوگ فقہی مسالک تبدیل کریں گے  اس سے لازمی طور پر عدالتی فیصلے متاثر ہوں گے۔ اس تبدیلی  کی آڑ میں بعض لوگ من پسند فیصلے کرائینگے، وہاں کچھ لوگوں کے حقوق تلف ہوں گے۔ اس  بات کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی عدل کے تقاضے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شاہ صاحب نہ تقلید کو حرام قرار دیتے ہیں جس طرح  ابن حزم ظاہری یا دیگر لوگوں نے  تقلید کو شرک یا حرام کہا،  نہ بالکل تقلید جامد  کے قائل ہیں۔ غلط اور جامد تقلید  پر سخت تنقید فرماتے ہیں۔آپ کا نظریہ تقلید  نہایت معتدل اور میانہ روی پر مشتمل ہے۔
حوالہ جات:
1۔البقرہ(2) : 143۔
2۔طبری،ابن جریر، تفسیر الطبری( مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، 1994ء)1/412۔
3۔صحیح البخاری، کتاب الایمان ،باب الدین یسر،رقم:39۔
4۔صحیح البخاری ، کتاب الرقاق،باب القصد والمداومۃ۔رقم : 6463۔
5۔دہلوی، شاہ ولی اللہ، التفہیمات الاٰلہیہ( مدینہ برقی پریس، مجلس العلمی،ڈابھیل،1936ء)2/240۔
6۔الانصاف،ص:74۔
7۔عقدالجید،ص:22۔
8۔ ایضا،ص: 46۔
9۔دہلوی، شاہ ولی اللہ ، التفہیمات الالہیہ ( المجلس العلمی ،داھبیل،1936ء) 1/211۔
10۔عقدالجید، ص:60۔
11-ایضا،ص: 68۔ 
12- التفہیمات الالہیہ 1/214۔ 
13۔روضۃ الناظر وجنۃ المناظر1/343۔
14۔عقد الجید، ص: 51۔
15۔ایضا، ص:43۔
16۔ترمذی، محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذی، کتاب التفسیر،باب من سورۃ التوبۃ( دارۃ الحضرۃ للنشروالتوزیع،الریاض،1436ھ) رقم:3095۔
17۔عقدالجید،ص:44۔
18۔دہلوی، شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ(دارالجیل للنشر والطباعۃ،بیروت،2005ء) 1/264۔
19۔عقدالجید،ص: 44۔
20-ایضا،ص:63۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔