pati

بلاگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے .بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ،

Thursday, 9 April 2020

اختلافی مسائل میں سلف کا طرز عمل

اختلافی مسائل میں سلف کا طرز عمل

عام زندگی میں  دو آدمیوں کی ذہنی سطح یکساں نہیں ہوتی، قوت فہم و ادراک میں دو آدمیوں کے درمیان نمایاں فرق ہوتا ہے۔اس لئے  ہر ایک کی رائے  کا مختلف ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ایسے ہی شرعی مسائل  کے حل کرنے میں دو عالموں کی رائے بھی  فطری طور پر مختلف  ہوسکتی ہے۔ کسی ایک آیت یا حدیث میں  کوئی لفظ  ایسا بھی  ہوتا ہے جس کے ایک سے زائد معانی ہوسکتے ہیں، ایک عالم   کسی قرینے کی وجہ سے ایک معنی کو ترجیح  دیتا ہے جب کہ  دوسرا اپنی فہم و فراست کے مطابق دوسرے معنی کو ترجیح دیتا ہے۔
سب کا اتفاق ہے کہ  صحیح حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے ، مگر حدیث کے صحیح  اور قابل عمل ہونے کی شرائط کے سلسلہ میں  علماء کا معیار  قبولیت  الگ الگ ہے۔ مثلا سند متصل کے لئے  کوئی ملاقات کو ضروری سمجھتا ہے  کوئی اس کو ضروری نہیں سمجھتا۔کوئی مرسل روایت کو قابل عمل سمجھتا ہے  اور کوئی اس پر اعتبار نہیں کرتا وغیرہ۔ یہ اختلاف  ایک فطری امر ہے  ایسا ہو ہی نہیں کہ  تمام لوگ تمام مسائل میں  متفق ہوں۔
علمی کمال  میں بھی  سب برابر نہیں ہوتے، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے  کوئی عالم کسی حدیث سے واقف ہو سکا اور کوئی اس حدیث کی واقفیت  تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  ایک ہی معاملہ میں دو متضاد اور ایک دوسرے سے متعارض احادیث   سامنے   آجاتی ہیں ، اور دونوں درجہ صحت کے لحاظ  درست بھی ہوتی ہیں، اب  ان دونوں میں سے کس کو مانا جائے کس کو نہ مانا جائے، اس میں بھی علماء کا انداز فکر جدا جدا ہے۔کوئی ایک کو منسوخ قرار دے کر دوسری حدیث کو ترجیح دیتا ہے، یا منسوخیت کی دلیل نہ ہونے  کی  وجہ سے  دوسرے قرائن کی بنیاد پر ایک کو دوسری پر راجح قرار  دے  دیا جائے۔  یا کسی کے ذہن میں تطبیق کی  صورت آ جائے۔
ان سب فطری اسباب کی بناء پر بہت سے مسائل  میں اختلافات رونما ہوئے ہیں ، لیکن چونکہ ان کی بنیادیں بالکل فطری تھیں  اس لئے نہ صرف یہ کہ ان کو گوارا کیا گیا، بلکہ ان کی وجہ سے جو مختلف مسائل سامنے آئے اور علم کا جو زبر دست ذخیرہ تیار ہوا اس کو اس امت کا وصف  امتیاز اور عظیم کارنامہ قرار دیا گیا۔ یہ سلسلہ دور صحابہ سے لے کر  تا حال جاری و ساری ہے اور یہ امت کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ، اس لئے جب تک امت میں زندگی اور تازگی رہے گی ، یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا، اور نت نئے مسائل کی وجہ سے روز بروز اس عظیم فقہی سرمایہ  میں  اضافہ  جاری  رہے گا۔

فقہی اختلاف باعث رحمت اور سہولت :
فقہی اختلاف کے آغاز و وجود کی تاریخی فقہی اختلاف کی حیثیت و حقیقت اور اختلاف آراء کے اسباب کی مفصل وضاحت کے ساتھ  ساتھ حضرت شاہ ولی محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک انتہائی اہم پہلو پر روشنی ڈالی ہے  کہ  ابتدائی ادوار میں سلف صالحین کے درمیان فقہی اختلافات کے سلسلہ میں ان کے طرز عمل کیا تھا۔ اختلاف آراء کو صحابہ  و تابعین اور سلف صالحین نے کس نظر سے دیکھا اور فقہی آراء کے فرق و اختلاف میں ان کی روش کیا تھی۔
سلف نے نہ صرف  یہ کہ ان اختلافات کو مخالفتوں اور عداوتوں کا سبب  ہونے نہیں دیا ، بلکہ اس کو قدر کی نگاہ  سے دیکھا ، اس کو اہمیت دی اور ایک طرح سے  اس کی ہمت افزائی کی ہے۔چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز  فرمایا کرتے تھے:
" ماسرنی لو ان اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یختلفوا، لانھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ "(1)
" مجھے اس کی خوشی نہ ہوتی کہ صحابہ کرام  میں اختلاف نہ ہوتا، اس لئے کہ اگر ان میں اختلاف نہ ہوتا تو سہولتیں نہ ہوتیں"۔
اس طرح حضرت قاسم  بن محمد بن ابی بکر  جن کا شمار مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں ہوتا ہے، فرماتے ہیں:
" کان اختلاف اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مما نفع اللہ بہ، فما عملت منہ من عمل لم یدخل نفسک منہ شئ "(2)
" صحابہ کرام کے اختلاف سے اللہ تعالی نے ملت  اسلامیہ کو فائدہ پہنچایا ، اس لئے تم اس میں سے جس بات  پر بھی عمل کرو تمہارے دل میں کوئی کھٹک پیدا نہیں ہونی چاہئے"۔
بلکہ سلف کے ہاں  اختلاف علماء سے واقفیت کسی شخص کے بہت بڑے عالم ہونے کی سند سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اعلم الناس اعلمھم  بالاختلاف" (3)
" سب سے بڑا عالم وہ ہے جس کو اختلاف علماء کا علم سب سے زیادہ ہو"۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان میں یہ اختلافات  بہت واضح طور پر تھے۔ روز مرہ ان کو ان سے واسطہ پڑتا تھا، جس کی بے شمار مثالیں کتابوں میں موجود ہیں۔مثلا سفر میں روزہ  نہ رکھنے کی چھوٹ ہے ، بعض موقعوں پر یہاں تک فرمایا گیا کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔
اس کے باوجود کچھ صحابہ کرام روزہ رکھتے تھے ، اس لئے کہ وہ یہ سمجھتے تھے  کہ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہ جو بات فرمائی ہے کہ " سفر میں روزہ نیکی نہیں" یہ خاص پس منظر میں فرمائی تھی، اس لئے اگر ہم روزہ رکھیں  اور ضروری کاموں میں اس سے خلل نہ پڑے یا زیادہ پریشانی نہ ہو تو ، کوئی حرج  کی بات نہیں ہے۔ جب کہ بعض دوسرے صحابہ کرام کا یہ خیال تھا کہ  نہیں ، حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کی لاج رکھنی چاہئے، ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے  کہ روزہ نہیں رکھنا چاہئے، چنانچہ وہ  سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ لیکن روزہ  رکھنے والے اور نہ رکھنے والے  دونوں ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہیں کہتے تھے۔ متعدد صحابہ کرام نے یہ بات بیان کی ہے ، چنانچہ حضرت جابر، حضرت انس اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم ان تینوں حضرات سے اس طرح  کی روایتیں موجود ہیں:
عن انس بن مالک  قال: کنا نسافر مع النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  فلم یعب الصائم علی المفطر ، ولا المفطر علی الصائم (4)
" ہم لوگ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ سفر میں ہوتے ، ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھتے ، لیکن روزہ رکھنے والا ، روزہ نہ رکھنے والے کو عار دلاتا نہ روزہ چھوڑنے والا روزہ رکھنے والے کو طعنہ دیتا"۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
" فلا یجد الصائم علی المفطر ، ولا المفطر علی الصائم "(5)
جس کا حاصل یہ ہے کہ دل میں بھی  ایک دوسرے کے خلاف کچھ محسوس نہیں کرتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ مزاج تابعین میں منتقل ہوا، تابعین کے بھی  آپس میں شدید اختلافات تھے ، لیکن نہ وہ ایک دوسرے کو خطا کار سمجھتے ،اور  نہ اس کی وجہ سے کسی  کو برا بھلا کہتے تھے۔
علامہ ابن عبدالبر ابی عمر یوسف نے جلیل القدر تابعی یحیٰ بن سعید الانصاری  سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
" ما برح المستفتون یستفتون فیحل ھذا ، و یحرم ھذا ، فلا یرٰی المحرم ان المحلل ھلک لتحلیلہ ، ولا یری المحلل ان المحرم ھلک لتحریمہ"(6)
" فتوی دینے والے برابر فتوی دیتے رہے ، کوئی ایک چیز کو حلال بتاتا تو دوسرا اس کو حرام قرار دیتا، لیکن نہ حرام قرار دینے والا، حلال قرار دینے والے کے متعلق یہ خیال کرتا کہ وہ حلال کرنے کی وجہ سے تباہ ہوا، نہ حلال قرار دینے والا حرام قرار دینے والے کے بارے میں اس طرح کا تصور کرتا"۔
اس سلسلہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ  بہت مشہور ہے کہ جب انہوں نے مؤطا حدیث کی کتاب لکھی تو خلیفہ ابوجعفر منصور نے کہا کہ میں ایک فرمان جاری کرنا چاہتا ہوں کہ لوگ اسی کے مطابق عمل کریں ، اس سے اختلاف کرنے والی تمام باتوں کو چھوڑ دیں ، ورنہ ان کو سخت سزا دی جائے گی، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
" اے امیر المؤمنین! ہرگز ایسا نہ کیجئے ، بات یہ ہے کہ صحاب کرام مختلف علاقوں میں پھیل گئے ، اور اپنے اپنے  مطابق انہوں نے علم کی اشاعت کی ، اس لئے اختلافات ہوئے، سب صحیح ہیں، سب حق پر ہیں ، تو ہر علاقے والوں کو اسی پر رہنے دیجئے، اس سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو بڑی دشواری پیش آئے گی، اور ایک روایت میں ہے کہ اس کوشش سے کہیں لوگ کفر اختیار نہ کر لیں"۔(7)
حضرت شاہ ولی اللہ نے " حجۃ اللہ البالغہ"  میں  اسلاف کی روش اور طرز عمل کی چند مثالیں بیان فرمائی ہیں کہ کثیر  باہمی اختلاف  کے باوجود ، انہوں نے   عداوت و نفرت کو قریب نہیں آنے دیا:
وقد کان فی الصحابۃ والتابعین و من بعدھم ، من یقراء البسملۃ ، و منھم من لا یقرؤھا و منھم من یجھر بھا ، و کان منھم من یقنت فی الفجر ، ومنھم من لا یقنت فی الفجر ، و منھم من یتوضا من الحجامۃ  و لرعاف والقیئ ، و منھم من لا یتوضا من ذالک و منھم من لا یتوضا من  مس الذکر ومس النساء بشہوۃ ، و منھم من لا یتوضا من ذالک ، ومنھم من یتوضا مما مسۃ  النار ، ومنھم من لا یتوضا من ذالک ، و منھم من یتوضا من اکل لحم الابل ، و منھم من لا یتوضا من ذالک" (8)
" صحابہ و تابعین اور کے بعد کے لوگوں میں، کچھ لوگ نماز میں بسم اللہ پڑھتے تھے ، کچھ لوگ نہیں پڑھتے تھے، کچھ جہرا بسم اللہ پڑھتے تھے  اور کچھ سرا، بعض حضرات فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے ، اور بعض نہیں پڑھتے تھے۔ بعض پچھنے لگانے ، نکسیر اور قئی کو ناقض وضو سمجھتے تھے ،اور بعض نہیں مانتے تھے۔کچھ مس ذکراورشہوت سے عورت کو ہاتھ لگانے کو ناقض وضو مانتے تھے ،بعض نہیں مانتے تھے۔بعض ما مست النار سے وضو کرتے تھے،اور بعض نہیں کرتے تھے۔بعض اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے "
اختلافی مسائل میں سلف کے طرز عمل کے واقعات:
اس کے بعد شاہ صاحب نے  سلف کے طرز عمل کے چند واقعات  کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
1: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک مرتبہ امام اعظم ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کےمزار کے قریب مسجد میں فجر کی نماز پڑھی تو قنوت نہ پڑھا۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ :
" صاحب قبر کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے"
اور آپ کا یہ بھی ارشاد ہے:
"ربما انحدرنا الی مذہب اھل العراق" (9)
" ہم کبھی اہل عراق کے مذہب کی طرف اترتے ہیں"
2: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعض تلامذہ  اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  آئمہ مدینہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ،خواہ وہ امام مالکی یا اس کے علاوہ  ہوتا۔ حالانکہ مالکیہ نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے، سرا نہ جہرا ۔(10)
3:  خلیفہ ہارون رشید نے پچھنے لگوائے ، پھر نیا  وضو کئے بغیر نماز پڑھائی۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو فتوی دیا تھا کہ فصد کھلوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس کے پیچھے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے نماز پڑھی اور اس کا اعادہ نہیں کیا۔حالانکہ ان کے نزدیک بدن سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(11)
4: امام احمد بن حنبل  کا مذ ہب یہ کہ نکسیر اور پچھنے لگوانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، مگر جب ان سے مسئلہ پوچھا گیا  کہ ایک شخص کے بدن سے خون نکلا ، اور اس نے وضو کئے بغیر  نماز پڑھائی ، تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھے گے؟
تو آپ نے جواب دیا کہ:
" میں امام مالک اور حضرت سعید بن مسیب رحمہما اللہ کے پیچھے نماز کیسے نہیں پڑھوں گا!" (12)
5:  امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ   عیدین کی نماز پڑھاتے تھے  تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق  عیدین میں بارہ تکبیرات   کہتے تھے ،جبکہ احناف کے نزدیک عیدین میں تکبیرات زوائد چھ ہیں۔ کیونکہ خلیفہ ہارون رشید کو اپنے دادا کی یہ بارہ تکبیریں پسند تھیں۔(13)
6:امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ  حمام کے کنویں سے غسل کرکے جمعہ کی نماز پڑھائی، اور جب لوگ منتشر ہوگئے  آپ کو یہ اطلاع دی گئے کہ  حمام کے کنویں میں مرا ہوا چوہا پایا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
" اذا ناخذ بقول اخواننا من اھل المدینۃ ، اذا بلغ الماء قلتین لم یحمل خبثا" (14)
" اب ہم  اپنے بھائیوں اہل مدینہ کا قول لیتے ہیں  کہ جب پانی دو مٹکے ہو جائے تو وہ ناپاکی کو نہیں اٹھاتا"۔
7:امام خجندی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا کہ  ایک شخص شافعی المذہب تھا، اس نے سال دو سال کی نمازیں نہیں پڑھیں ۔پھر اس نے حنفی مسلک کو اختیار کر لیا ، تو اب نمازوں کی قضا کس مذہب کے مطابق کرے؟
آپ نے جواب دیا:
" دونوں میں سے جس مذہب کے مطابق بھی قضا کرے گا جائز ہے، بشرطیکہ وہ دونوں مذہبوں پر قضا کو جائز سمجھتا ہوں"۔  (15)
شاہ صاحب نے سلف صالحین کی زندگی کے ان روشن نقوش کو پیش کرنے کے  بعد  یہ بتایا ہے کہ  انہوں نے فروعی اختلافی مسائل  میں شدت اور  تعصب نہیں برتا  بلکہ ہمیشہ اجتہادی مسائل میں رواداری سے کام لیا ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

"ولذالک لم یزول العلماء  یجوزون فتاوی المفتنین فی المسائل  الاجتہادیۃ و  یسلمون قضاء القضاۃ و یعلمون فی بعض الاحیان بخلاف مذھبھم"(16)

" اسی وجہ سے علماء ہمیشہ اجتہادی مسائل میں مفتیوں کے فتاوی  کو جائز قرار دیتے تھے اور وہ قاضیوں کے فیصلوں کو بھی صحیح تسلیم کرتے تھے اور بسا اوقات تو وہ اپنے مذہب کے خلاف بھی عمل کرتے تھے"۔
سلف صالحین کے اس طرز عمل اور روش کو بیان کر کے شاہ صاحب گویا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اختلافی مسائل میں یہی معتدل طرز عمل اور روادارانہ اسلوب مطلوب ہے اور ان مسائل میں شدت اور سختی شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1۔الخطیب البغدادی، ابی بکر احمد بن علی بن ثابت، الفقیہ والمتفقہ( دار ابن جوزی،الریاض، 1996ء)2/116۔
2۔ ایضا، 2/116۔
3۔المزی، جمال الدین ابی الحاج یوسف بن عبد الحمن، تھذیب الکمال( مؤسسۃ الرسالہ، بیروت،س۔ن)5/80۔
4۔بخاری، ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب الصوم، باب  لم یعب اصحاب النبی  بعضھم بعضا فی الصوم والافطار(دار ابن کثیر، بیروت،2002ء) رقم: 1947۔
5۔القشیری ، مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم ،کتاب الصیام ،باب جواز الصوم و الفطر للمسافر ( دارالحضارۃ  للنشر والتوزیع ،الریاض ، 1436ھ)رقم:1116۔
6۔عبدالبر، ابی عمر یوسف،جامع بیان العلم و فضلہ ( دار ابن جوزی،الریاض، 1994ء)ص:2/902۔
7۔ابن سعد، محمد بن سعد،الطبقات الکبری ( مکتبہ الخانجی،بالقاہرہ،2001ء) 7/573۔
8۔دہلوی، شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ مع شرح رحمۃ اللہ الواسعہ، 2/718۔
9۔ دہلوی، شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ مع شرح رحمۃ اللہ الواسعہ، 2/718۔
10۔ایضا، 2/718۔
11۔ ایضا، 2/718۔
12۔ ایضا، 2/718۔
13۔ ایضا، 2/718۔
14۔ ایضا، 2/718۔
15۔ ایضا، 2/718۔
16۔حجۃ اللہ البالغہ مع شرح رحمۃ اللہ الواسعہ، 2/710۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔