شاہ ولی اللہ کے نزدیک فقہی اختلاف کی حقیقت
ایک آدمی جب فقہا اور مجتہدین کی آراء اور ان کے اجتہادات
پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات سوالیہ نشان بن کر ابھرتی ہے کہ جب فقہاء
اور مجتہدین کے استدلالات و استخرجات
مسائل کا بنیادی ماخذ و مصدر کتاب
اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہے ، تو پھر ان کی آراء
اور اجتہادات میں اختلاف کیوں ہے؟
ایک مسئلہ میں ایک امام اور مجتہد کی
اپنی ایک رائے ہیں، جبکہ اسی مسئلہ میں دوسری امام و مجتہد کی رائے یکسر اس سے مختلف ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے احکام شرعیہ کے متعلق باہمی اختلاف کے اسباب و علل پر نہایت معقول اور مدلل انداز میں تفصیل بیان کی
ہے، کہ قرآن و سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے پہلے صحابہ کرام نے لیا اور فقہی امور
میں صحابہ کرام کا اختلاف ان کے طبائع اور ذہنی استعداد میں فطری اختلاف کے باعث
تھا۔ کیونکہ تمام صحابہ کرام حفظ و اتقان میں یکساں و برابر نہیں تھے۔ اس لئے ان
کا قرآن و سنت کی کسی ایک نص یا کسی واقعہ
سے مختلف نتائج اخذ کرنا
تقاضائے بشری کے عین مطابق تھا۔عہد نبوی میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن میں صحابہ
کرام کے درمیان بعض مسائل
کی تفہیم میں اختلاف رائے ہوا ،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ایسے واقعات میں کسی قسم کی نکیر نہیں فرمائی۔ صحابہ کرام میں یہ
اختلافات حق و باطل کے نوعیت کے نہیں بلکہ فروعی مسائل میں ان کے اجتہادی فکر کا نتیجہ ہیں ، چونکہ تمام صحابہ رشد و ہدایت کے چمکتے ستارے ہیں ، اس لئے ان کے
اختلافات کو شرعی حیثیت حاصل ہے۔
اختلاف صحابہ کے سات اسباب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان سات
اسباب کی نشان دہی کی ہے جو صحابہ کرام کے اس اختلاف کا سبب بنے۔
1 ۔ حدیث نبوی سے عدم واقفیت کا اختلاف:
بعض صحابہ کرام کو کسی امر
سے متعلق جناب رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم کا حکم و ارشاد
معلوم تھا ، لیکن بعض صحابہ اس سے ناواقف تھے۔ اس لئے انہوں نے
مجبورا اس مسئلہ میں اپنے اجتہاد سے کام لیا۔ جس کی چند صورتیں یہ ہوتیں:
1۔اجتہاد عین حدیث
نبوی کے مطابق نکلا:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسی عورت کے( حق مہر ) کے بارے پوچھا
گیا جس کا شوہر مہر مقرر کرنے اور اس سے مقاربت کرنے سے پہلے فوت ہو گیا۔ آپ نے فرمایا ایسے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی
فیصلہ مجھے معلوم نہیں، لوگ مہینہ بھران کے ہاں آتے اور اصرار کرتے رہے کہ کوئی
حکم بیان کریں۔ تب انہوں نے اجتہاد کر کے یہ فیصلہ دیا کہ اس عورت کو اتنا
مہر ملنا چاہئے جتنا اس کی ہم مرتبہ عورتوں کا ہوا کرتا ہے، نہ کم ہو نہ زیادہ،نیز
اس کو عدت گزارنا ہوگی اور وہ شوہر کے ترکہ میں سے حصہ بھی پائے گی۔یہ سن کر حضرت
معقل بن یسار کھڑے ہوئے اور انہوں نے بطور
شہادت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی ایک عورت کے بارے میں ایسا حکم ارشاد فرمایا تھا۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ سن کر اتنی مسرت ہوئی کہ مشرف
بہ اسلام ہونے کے بعد اب تک ایسی مسرت ان پر کبھی بھی طاری نہ ہوئی تھی۔
2۔صحابہ میں کسی مسئلہ کے متعلق بحث ہوئی اور اس سلسلہ میں
کوئی حدیث نبوی سامنے آئی جس سے صحت کا ظن غالب ہوتا تھا۔ اس لئے مجتہد نے اپنا
اجتہاد چھوڑ کر حدیث رسول کو اختیار کیا۔
جیسے وہ روایت جس کو آئمہ حدیث نے بیان
کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے
خیال میں،جو شخص طلوع صبح کے وقت تک جنبی رہا، اس کا روزہ نہیں
ہوتا۔لیکن جب بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس
خیال کے خلاف بیان کیا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال سے رجوع
فرمالیا۔
3۔حدیث تو پہنچی لیکن قابل اطمینان طریقے سے نہیں پہنچی
کہ اس کے صحیح ہونے کا گمان غالب ہوتا، مجتہد نے اسے ناقابل اعتبار سمجھتے
ہوئے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔
جیسے حدیث فاطمہ بنت قیس، جس میں انہوں حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے روبرو آکر کہا تھا :
" میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مکان
دلوایا اور نہ نفقہ" ۔
حضرت عمر اور حضرت عائشہ نے اس حدیث پر طعن کیا اور اس کو صحیح نہ جانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا تھا:
"
ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑیں گے، ہم نہیں
جانتے کہ شاید وہ بھول گئی ہے یا اس نے
یاد رکھا۔ مطلقہ ثلاث کے لئے رہائش اور
نفقہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
" لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ
مبینۃ" (1)
" تم ان کو ( ایام عدت میں) ان کے گھروں سے نہ نکالو
اور نہ وہ خود نکلیں ۔ ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں (تو نکال دینا چاہئے)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا:
" فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ؟ کیا وہ اللہ سے نہیں ڈرتی
؟ یعنی یہ کہتی ہے کہ مطلقہ نفقہ اور
رہائش کی مستحق نہیں ہے۔
اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے غالب گمان سے
حدیث کو قابل اعتبار نہ جانا، اور قرآن مجید کی آیت کی روشنی میں اپنی یہ رائے قائم رکھی کہ مطلقہ ثلاث کے لئے رہائش اور نفقہ ہے۔ یوں صحابہ میں اختلاف پیدا ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
حضرت عمر نے اس
حدیث میں ایک معلوم مخفی اعتراض کی وجہ سے
یہ حدیث تسلیم نہیں کی اور اسے قابل حجت قرار نہیں دیا، لیکن بعد میں تابعین کے زمانہ میں متعدد طرق سے اس حدیث کو شہرت ہوگئی،معترض
کا وہم دور ہوگیا اور سب نے اس حدیث کو اختیار کر لیا۔
4۔اجتہاد کرنے والے صحابی کو حدیث سرے سے پہنچی ہی نہیں،
مثلا مسلم کی یہ روایت کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ عورتوں کو یہ
حکم دیتے کہ وہ جب غسل کریں تو اپنے سر کے بال کھول لیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں
نے فرمایا:
" تعجب ہے ابن عمر پر کہ وہ عورتوں کو بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں ! اگر ایسا ہی ہے تو سیدھے سے
یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ عورتیں اپنے سر ہی منڈالیں! حالانکہ میں اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور میں اپنے بالوں کے سلسلہ
میں اس کے سوا کچھ نہیں کرتی تھی کہ ان پر
تین بار پانی بہادیتی اور کبھی ان کو
کھولتی نہیں تھی۔(2)
2 ۔ فعل رسول کی تعیین نوعیت میں اختلاف:
اختلاف صحابہ کی
دوسری وجہ یہ تھی کہ بنی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ایک کام کرتے سب نے دیکھا ، مگر افکار بشری
میں فطری تفاوت کی وجہ سے اس فعل کی نوعیت سمجھنے میں اختلاف ہو گیا۔ کسی نے اس
فعل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت
سمجھ لیا تو کسی نے اسے صرف اباحت پر محمول کیا۔مثلا تحصیب یعنی سفر حج کے دوران
میں ابطح کی وادی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اترنا ، اصحاب رسول نے
بیان کیا ہے۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اترنا
حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک عبادت کی حیثیت سے تھا، اس لئے یہ لوگ اس کو حج کی سنتوں میں شمار کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما کے خیا ل میں یہ اترنا
محض اتفاقی امر تھا ، نہ کہ بطور سنت تھا۔
دوسری مثال ، جمہور کے نزدیک خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت
رمل یعنی اکڑ کر چلنا سنت ہے ، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ مؤقف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے جو رمل کیا تھا وہ محض اتفاقی طور
پر ایک عارضی سبب سے تھا ، یعنی مشرکین
مکہ کا یہ طعنہ" مسلمانوں کو مدینے کے بخار نے بلکل چور کر ڈالا ہے" اس
طعن کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اکڑ کر چلنے کا
وقتی حکم دیا تھا ورنہ یہ حج کی کوئی
مستقل سنت نہیں ہے۔ (3)
3 ۔ وہم تعبیر کا اختلاف:
اختلاف کی تیسری وجہ یہ تھی کہ افعال رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو بیان کرنے میں لوگوں نے
مختلف گمانوں سے کام لیا۔مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج ادا
فرمایا اور تمام صحابہ نے اس کا مشاہدہ کیا ، لیکن اس حج کی نوعیت بیان
کرتے وقت کسی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج تمتع کیا تھا ، کسی نے کہا آپ نے حج قران کیا تھا اور کسی کو یہ
خیال ہوا کہ آپ کا حج، حج افراد تھا۔
اس کی دوسری مثال حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے:
" میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوالعباس! یہ سیکھ کر مجھے بڑی
حیرانی ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام حج باندھ لینے کے بعد جو تلبیہ
فرمایا تھا اس کے متعلق اصحاب رسول
میں بیان اور رائے کا اتفاق موجود نہیں ہے۔ابن عباس نے فرمایا کہ میں اس
واقعہ کی حقیقت سب سے بہتر جانتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے صرف ایک حج ادا فرمایا، اس لئے
لوگوں میں اس کی تفصیل کے متعلق ( قدرتی طور) اختلاف ہو گیا۔صورت واقعہ یہ ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج
کی خاطر مدینہ سے چلے اور جب مسجد
ذوالحلیفہ میں آپ نے دوگانہ احرام ادا فرمایا تو اسی جگہ حج کا احرام باندھ لیا اور فورا تلبیہ کیا۔ اس
تلبیہ کی آواز کچھ لوگوں کے کانوں
میں پہنچی جنہوں نے اس کو یاد کرلیا، اس
کے بعد آپ اونٹنی پر سوار ہوگئے۔ جب اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو آپ نے پھر تلبیہ کیا اور اس تلبیہ کو بھی کچھ لوگوں نے سنا۔ بات
یہ تھی کہ لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں خدمت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں چلے آتے تھے ۔ پس جب ایک گروہ نے
اونٹنی کے کھڑے ہونے کے وقت آپ کو تلبیہ کرتے سنا تو وہ یہ سمجھ
بیٹھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے تلبیہ
صرف اس وقت کیا جب ناقہ آپ کو لے کر اٹھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اس جگہ سے آگے بڑھے ، جب بیدا نامی
مقام کی بلندی پر چڑھے تو آپ نے پھر تلبیہ کیا۔کچھ اور لوگوں نے آپ کو یہ تلبیہ
کرتے ہوئے سنا اور وہ اپنی جگہ پر خیال کربیٹھے کہ آپ نے تلبیہ صرف اس وقت کیا جب
بیدا کی بلندی پر چڑھ رہے تھے، حالانکہ
بخدا آپ نے اپنی جائے نماز ہی پر حج کی نیت کر لی تھی اور جب آپ کو لے کر
ناقہ کھڑی ہوئی ، اس وقت بھی آپ نے تلبیہ
کیا اور جب بیدا کی بلندی پر چڑھے اس وقت بھی کیا"۔ (4)
4 ۔ سہو و نسیان کا اختلاف:
سہو اور نسیان بشری
تقاضوں میں سے ہیں،اختلاف صحابہ کی چوتھی وجہ
سہو و نسیان تھی۔ مثلا حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا
قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے اور پہلا عمرہ رجب میں کیا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی
عنہا نے فرمایا:
" اللہ تعالی ابوعبدالرحمن ( حضرت ابن عمر) پر رحم
کرے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی
عمرہ بھی ایسا نہیں کیا جس میں ابوعبدالرحمن شریک نہ ہوئے ہوں اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔(5)
5 ۔ ضبط مدعائے
حدیث کا اختلاف:
اختلاف صحابہ کی
پانچویں وجہ یہ تھی کہ بسا اوقات آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ فرماتے اس کے
اصل اور پورے مفہوم کو ہر صحابی یکساں طور
پر اپنی گرفت میں نہ لیتا۔مثلا جب حضرت
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے یہ روایت بیان کی کہ ، میت
کے پس ماندگان کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے یہ الفاظ سنے تو فرمایا کہ ابن عمر
رضی اللہ عنہ نے ارشادِ رسالت کو اس کے اپنے صحیح
موقع و محل اور مدعا کے ساتھ محفوظ نہیں رکھا۔اصل واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک یہودی عورت کی
قبر سے گزرے جس کے اعزا و اقارب رو رہے تھے ۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، یہ لوگ یہاں اس کا نوحہ و ماتم کر رہے
ہیں اور وہ قبر میں مبتلائے عذاب ہے۔دیکھو
کہ واقعہ کس طرح ایک خاص میت سے متعلق تھا لیکن حضرت ابن عمر نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مخصوص موقع
بیان کو ذہن سے نکال دیا اور عزیزواقارب کی گریہ زاری ہی کو میت پر عذاب کی علت
گمان کر بیٹھے۔اس طرح اس بات کو انہوں نے ہر میت کے سلسلہ میں ایک عام اصول کی
حیثیت دے دی۔(6)
6 ۔ تعیین علت کا اختلاف :
اختلاف کی چھٹی وجہ یہ تھی کہ احکام شرع کی علت متعین کرنے
میں حضرات صحابہ کی راہیں مختلف ہوگئیں۔جیسے
جنازے کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا مسئلہ ، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا
کہنا ہے کہ ایسا فرشتوں کی تعظیم میں کیا جاتا ہے ،کیونکہ ہر جنازے کے ساتھ فرشتے
ہوتے ہیں۔تو اس خیال سے ہر جنازے کے لئے
کھڑے ہوجانا چاہیئے، خواہ مومن کا جنازہ
ہویا کافر کا۔ لیکن بعض دوسرے حضرات کا خیال ہے کہ یہ قیام موت کے ہول کی
وجہ سے ہے، تو اس صورت میں اٹھ کھڑے ہونے کا یہ حکم ہر جنازے کے لئے عام ہوگا۔
لیکن کچھ صحابہ کا یہ کہنا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ کو اس
بات سے تنفر ہوا کہ ایک یہودی کی لاش میرے سر سے اونچی ہو کر گزرے، اس لئے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے۔ اگر اس علت کو صحیح مانا جائے تو یہ قیام صرف
جنازہ کفار کے لئے مخصوص ہوگا۔(7)
7 ۔ طرز تطبیق کا اختلاف:
اختلاف کی ساتویں وجہ وہ اختلاف رائے ہے جو مختلف احکام شرع
کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں پیش آیا۔مثلا
یہ کہ جنگ خیبر کے موقع پر آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعہ کی
اجازت دی، بعد میں اس کی ممانعت کردی، پھر
جنگ اوطاس کے زمانہ میں دوبارہ یہ رخصت عطا فرمائی، اس کے بعد پھر اس سے روک
دیا۔اب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا ہے کہ ضرورت کی بناء پر اجازت دی گئی تھی اور جب
ضرورت جاتی رہی تو اجازت بھی واپس لے لی گئی ، مگر حکم اپنی جگہ باقی ہے۔ لیکن
جمہور کا کہنا ہے کہ متعہ کی رخصت بطور اباحت تھی جس کی ممانعت نے ہمیشہ کے لئے اسےمنسوخ کر دیا۔
دوسری مثال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استنجا کرتے وقت
قبلہ رو ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اس کے متعلق کچھ صحابہ کرام کا مذہب یہ ہے کہ یہ
حکم بالکل عام اور غیر منسوخ ہے، لیکن حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو وفات سے ایک سال قبل قبلہ کی طرف منہ کر کے
پیشاب کرتے دیکھا۔ اس لئے ان کا خیال یہ
تھا کہ آپ کے اس فعل نے پہلی ممانعت کو منسوخ
کردیا۔اسی طرح حضرت ابن عمر نے نبی
پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبلہ کی
طرف پشت اور شام کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس لئے انہوں
نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فعل
کو ان لوگوں کے قول کی تردید فرمائی جو کہتے تھے کہ قبلہ کی طرف پشت کر کے استنجا
کرنا شرعا ممنوع ہے۔ پھر لوگوں نے دونوں روایتوں میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔
چنانچہ امام شعبی وغیرہ نے یہ رائے قائم
کی کہ یہ ممانعت صرف کھلے میدانوں سے متعلق ہے ورنہ اگر آدمی استنجا گاہ کے اندر
ہو تو اس کے لئے قبلہ کی طرف پشت یا رخ
کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن بعض دوسرے حضرات اس طرف گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول جس میں ممانعت موجود ہے اپنی جگہ بالکل
قائم و ثابت ہے اور اس کا حکم عام ہے۔(8)
اختلاف صحابہ کے نتیجہ میں باضابطہ فقہی مسالک کی تشکیل:
اس تفصیلی وضاحت کے ذریعے شاہ صاحب نے اس بات کو واضح کیا
ہے کہ درج بالا ان اختلافات کے علمی اسباب
تھے، ہر ایک کی رائے دلیل پر مبنی تھی، لہذا یہ علمی اختلاف صحابہ کرام سے
تابعین اور تابعین سے تبع تابعین میں منتقل ہوا۔جب اختلاف آراء زیادہ وسیع ، اور زیادہ نمایاں ہوا
تو باضابطہ فقہی مسالک تشکیل پا گئے۔
چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
" الغرض صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کے مذاہب مختلف ہوگئے۔
پھر یہی اختلاف وراثتا حضرات تابعین تک پہنچا، حضرات صحابہ سے ہر تابعی کو جو کچھ ملا اس نے اسی کو اپنا
لیا۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی جو احادیث ان کو پہنچیں اور صحابہ کرام کے جو مذاہب انہوں نے سنے ، اس کو محفوظ اور ذہن
نشین کر لیا۔ پس اس حالت میں قدرتی طور پر
علماء تابعین میں بھی ہر ایک کا اپنا علیحدہ
مذہب ہوگیا۔ہر تابعی مختلف شہروں میں امام بن گیا۔ مثلا مدینہ میں
سعید بن مسیب اور سالم بن عبداللہ عوام کے مرجع و امام بن گئے، پھر ان کے بعد امام زہری اور قاضی یحیٰ ابن سعید اور ربیعہ
ابن عبدالرحمن نے بھی امامت کی حیثیت حاصل
کر لی۔ مکہ میں حضرت عطاء ابن ابی رباح ، اور کوفہ میں حضرت
ابراہیم نخعی اور حضرت شعبی نے مسند امامت سنبھالی، اسی طرح حضرت حسن بصری،
بصرہ میں، حضرت طاؤس بن کیسان یمن میں اور
حضرت امام مکحول شام میں پیشوائے دین اور ترجمان شرع تسلیم کئے گے۔ اس کے بعد اللہ
تعالی نے کچھ لوگوں کے دلوں میں ان علماء
تابعین کے علوم و معارف کی پیاس پیدا کی اور انہیں علوم کی تحصیل کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ انہوں نے علماء کبار سے رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں
، صحابہ کرام کے اقوال اور فتاوی اور خود ان کے مذاہب اور تحقیقات لے کر جمع
کیں، لوگوں نے ان سے فتوے پوچھے ، اور
زندگی کے بے شمار مسائل ان کے سامنے آئے
اور کئی نئے معاملات ان کے سامنے
آئے، جن میں انہیں فتوے دینے پڑے "۔ (9)
صحابہ کرام کے اختلاف کے نتیجہ میں تابعین کے دور میں دو بڑے مکاتب فکر ،حجازی اور عراقی وجود میں
آئے:
پہلا مرکز
مدینہ منورہ تھا، جہاں حضرت عمرؒ، حضرت عثمان ؒ، حضرت ابن عمرؒ، حضرت عائشہؒ، حضرت
ابن عباس ؒ، حضرت زید بن ثابت ؒ اور ان کے بعد ممتاز تابعین کی روایات، آراء اور
اقوال لائق اختیار قرار پائے اور عالم مدینہ حضرت امام مالک (م:179ھ) اس سرمائے کے
امین اور علمبردار ہوئے۔
دوسرا مرکز
عراق کا شہر کوفہ تھا۔جہاں تین سو سے زائد علماء صحابہ کرام تشریف لائے تھے اور
بالخصوص حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے
اصحاب، حضرت علیؒ، حضرت شریح، حضرت شعبی ؒ، حضرت ابراہیم نخعیؒ کے فتاویٰ اور
فیصلوں کو ترجیحی طور پر اختیار کیا گیا۔ اس سرمایہ علم و درایت کے علمبردار حضرت
امام اعظم ابوحنیفہ ( م:150ھ) ہوئے۔
حضرت امام
شافعی ؒ (م:204ھ) اس وقت تشریف لائے جب حنفی اور مالکی مسالک کے اصول و فروع کی
ترتیب کا دور آغاز تھا۔ انہوں نے دونوں مسالک کی بنیادوں پر نظر ڈالی اور ان سب کی روشنی میں اپنے اصول و فروع متعین فرمائے۔
حضرت امام احمد
بن حنبل ( م:241ھ) کا دور آیا۔ جغرافیائی اعتبار سے ان کا مرکز عراق کا شہر بغداد رہا، اور علمی
انتساب امام شافعی ؒ سے حاصل ہوا، رحجان
روایت حدیث کے علمبردار ہوئے۔
چنانچہ ان آئمہ
مجتہدین کی فقہ اوراق میں مدون ہونے لگیں
اور معین مجتہدین کے مذہب کو اختیار کرنے کا رحجان پیدا ہوا۔ ابتداء میں کئی فقہاء
کے مذاہب موجود تھے۔لیکن وہ شہرت عام اور بقائے دوام حاصل نہ کر سکے اور رفتار
زمانہ کے ساتھ ساتھ مختلف اسباب کے نتیجہ میں ناپید اور ختم ہوگئے
،اور صرف چار فقہی مسالک ،مالکی
،حنفی، شافعی اور حنبلی باقی رہ گئے۔(10)
فقہاء کے
درمیان اکثر فروعی مسائل میں راجح ، مرجوح، افضل اور غیر افضل کا اختلاف
ہے:
آئمہ مجتہدین
کے درمیان فروعی مسائل میں جو اختلاف ہے ،
بالخصوص جن مسائل میں صحابہ کے اقوال
دونوں طرف موجود ہیں ، وہ جواز یا
عدم جواز کا اختلاف نہیں ہے ، بلکہ مختلف فیہ مسائل کی بڑی تعداد وہ ہے جن میں
افضل ، غیر افضل اور راجح ، مرجوح کا اختلاف ہے۔
چنانچہ شاہ
صاحب فرماتے ہیں:
" ان اکثر صور الاختلاف بین الفقہاء ، لا
سیما فی المسائل التی ظھر فیھا اقوال الصحابۃ فی الجانبین ، کتکبیرات التشریق و
تکبیرات العیدین ، و نکاح المحرم و تشھد ابن عباس و ابن مسعود والاخفاء والجھر بالبسملۃ ، وباٰمین، والاشفاع
والایثار فی الاقامۃ ، و نحو ذالک، انما
ھو فی ترجیح احد القولین و کان السلف لا یختلفون فی اصل المشروعیۃو انما
کان خلافھم فی اولی الامرین و نظیرہ "
"فقہاء کے
درمیان اختلاف کی بیشتر صورتیں ، بالخصوص
وہ مسائل جن میں صحابہ کے اقوال دونوں
جانب سے ہیں جیسے تکبیرات تشریق، تکبیرات عیدین ، احرام والے کا نکاح ، ابن
عباس اور ابن مسعود کا تشہد ، نماز میں
آہستہ اور بلند آواز میں بسم اللہ، یا امین
پڑھنا ، الفاظ اقامت کو جفت یا طاق
کہنا وغیرہ، یہ اختلاف صرف دو قولوں
میں سے ایک قول کو ترجیح دینے میں تھا ،
نفس مشروعیت میں سلف کا کوئی اختلاف نہیں۔ ان کا اختلاف صرف دو باتوں میں سے بہتر بات میں تھا"۔(11)
ان مسائل کی
وضاحت:
تکبیرات
تشریق امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک
عرفہ کی فجر سے یوم نحر کی عصر تک آٹھ
نمازوں میں ہیں۔ صاحبین کے نزدیک عرفہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک تئیس نمازوں
میں ہیں، اور امام شافعی کی نزدیک یوم نحر کی ظہر سے تیرہویں کی فجر تک پندرہ
نمازوں میں ہیں۔
عیدین میں
تکبیرات زوائد ، احناف کے نزدیک ہر رکعت
میں تین تین کل چھ ہیں۔آئمہ ثلاثہ کے نزدیک بارہ ہیں ، پہلی رکعت میں سات اور
دوسری رکعت میں پانچ ہیں۔
احناف کے نزدیک
بحالت احرام نکاح درست ہے اور صحبت حرام
ہے اور آئمہ ثلاثہ کے نزدیک نکاح باطل ہے۔
ابن عباس کا
تشہد اس طرح ہے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات
للہ ، سلام علیک الخ، ابن مسعود کا تشہد جو لوگوں میں معروف ہے۔
نماز میں جہرا بسم اللہ پڑھنا امام شافعی کے نزدیک سنت ہے ، احناف اور حنابلہ کے نزدیک سرا ہے،
اور امام مالک کے نزدیک نہ سرا ہے نہ جہرا۔
احناف کے نزدیک
اقامت میں بھی آذان کی طرح جفت کلمات ہیں اور کل سترہ کلمات ہیں اور آئمہ ثلاثہ کے
نزدیک اقامت طاق کہنا اولیٰ ہے۔
خلاصہ کلام یہ
ہے کہ فقہی اختلاف صرف فروعی مسائل میں ہے
، جس کے بڑے حصہ میں اختلاف کی نوعیت راجح مرجوح ، اولی و غیر اولی کی ہے۔ یہ اختلاف جواز عدم جواز کا نہیں، علماء
کرام نے ہمیشہ اجتہادی مسائل میں دونوں
جانب مفتیوں کے فتوی کو جائز رکھا ہے۔شاہ صاحب
مذکورہ مسائل کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں صحابہ کا اختلاف تھا ، اور
تمام صحابہ راہ ہدایت پر تھے لہذا ان سے منقول تمام صورتیں جائز ہیں۔ (12)
حوالہ جات:
1۔الطلاق(65):1۔
2۔دہلوی ، شاہ ولی اللہ ،الانصاف اردو ترجمہ اختلافی مسائل
میں اعتدال کی راہ، مترجم مولانا صدرالدین اصلاحی( اسلامک پبلی
کیشنز،لاہور،س۔ن)ص:17۔
3۔ایضا،ص:17۔
4۔ایضا،ص:19۔
5۔ایضا، ص: 19۔
6۔ایضا، ص:19۔
7۔ایضا، ص:20۔
8۔ایضا، ص: 20۔
9۔ایضا، ص:22۔
10۔ دہلوی، شاہ
ولی اللہ،حجۃ اللہ البالغہ( دارالجیل للنشر والطباعۃ، بیروت، 2005ء)1/248۔
11۔ دہلوی۔ شاہ
ولی اللہ ،حجۃ اللہ البالغہ مع شرح رحمۃ اللہ الواسعہ( زمزم پبلی کیشنز۔ کراچی،
2006ء)2/ 710۔
12۔ ایضا،
2/710۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔