علماء کی نظرمیں شاہ
ولی اللہ کا علمی مقام:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی نشر و اشاعت ، احیاء سنت، قرآن و حدیث کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح میں صرف کیا ہے۔ زہد و ورع ، تقویٰ و طہارت ، حفظ و ضبط ،عدالت و ثقاہت ، علم و فضل اور تبحر علمی میں جامع الکمالات تھے۔آپ بیک
وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی،فقیہ بھی تھے
اورمجتہد بھی، متکلم بھی تھے اور معلم بھی، صوفی بھی تھے اور مصنف بھی،
غرض کوئی علم و فن ایسا نہیں ہے جس میں آپ
کی قابل قدر خدمات کا دخل نہ ہو۔ علمائے اسلام نے شاہ صاحب کے علم و فضل ،تبحر علمی اور تجدیدی و اصلاحی کارناموں کا اعتراف کیا
ہے۔
شیخ الحدیث
ابوطاہر محمد بن ابراہیم کردی المدنی ( شاہ صاحب کے حجازی استاد محترم)
" انہ یسند عنی اللفظ
وکنت اصحح منہ المعنی او کلمۃ تشبہ ذالک"(1)
" وہ ( شاہ ولی اللہ ) مجھ سے الفاظ حدیث کی سند لیتے
ہیں اور میں ان سے حدیث کے معانی یا مشتبہ
کلمات کی درستگی کرتا ہوں"۔
سراج الہند شاہ عبدالعزیز
محدث دہلوی
" یہ جو امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی شان میں کہا گیا ہے،بلکل درست ہے کہ
وہ " آیۃ من آیات اللہ و معجزۃ من معجزات نبیہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "تھے۔(2)
سید نواب صدیق حسن خان قنوجی
نواب
صدیق حسن خان شاہ صاحب کی عظمت و مقام کا
اعتراف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
" اگر وجود او در صدر اول و در زمانہ ماضی می بود،
امام الائمہ و تاج المجتہدین شمردہ می شود" (3)
" اگر آپ پہلے زمانے میں پیدا ہوتے تو آپ کا شمار
اماموں کے امام اور مجتہدین کے سرداروں میں کیا جاتا"۔
ابجد العلوم میں
حضرت شاہ صاحب کے خاندان کے علمی اور روحانی مقام پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
و کلھم کانواعلماء نجباء حکماء فقھاء کاسلافھم و اعمامھم ،
کیف وھم من بیت العلم الشریف والنسب الفاروقی المنیف، وقد آذن الزمان الان بانصرام
ذلک البیت و اھلہ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
وکان بیتہ فی الھند بیت علم الدین، وھم کانوا مشائخ الھند
فی العلوم النقلیۃ بل والعقلیۃ، اصحاب الاعمال الصالحات وارباب الفضائل الباقیات ،
لم یعھد مثل علمھم بالدین علم بیت واحد من البیوت المسلمین فی قطر من اقطار الھند
، وان کان بعضھم قد عرف بعض علم المعقول ، وعدعلی غیر بصیرۃ من الفحول ، ولکن لم
یکن علم الحدیث والتفسیر والفقہ والاصول وما یلیھا الا فی ھذالبیت ، لا یختلف فی
ذالک مختلف من موافق ولا من مخلف الا من اعماہ اللہ عن الانصاف ، ومستہ العصبیۃ
والاعتساف، واین الثری من الثریا ، والنبیذ من الحمیا ، واللہ یختص برحمتہ من یشاء"(4)
" اس خاندان کا ہر ایک فرد اپنے اسلاف کی طرح عالم دین ، صاحب مرتبت اور حکیم و فقیہ تھا۔کیوں نا ہوتا؟ یہ حضرات
علم ع عمل میں یکتائے زمانہ ہونے کے ساتھ
نسب عالی " فاروقی" کے حامل بھی تھے۔(کس قدر افسوس ہے) کہ چیرہ
دست زمانہ کی شوخی نے اس خاندان کو ایک سرے سے صفحہ ہستی سے کھو ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ
راجعون
اس بیت علم کے تمام افراد جملہ علوم نقلیہ و عقلیہ میں کامل ہونے کے ساتھ مشائخ وقت بھی تھے۔حتیٰ کہ ہندوستان میں کوئی
ایک گھرانہ بھی اس کا ہم پلہ نہ ہو سکا۔
ایک وہ خاندان جو معقولات میں کچھ اس طرح
مشہور ہوا کہ عوام بغیر سوچے سمجھے اس کی طرف میلان رکھنے لگے اس میں تعجب والی
کونسی بات ہے۔یہ خاندان علم حدیث، تفسیر،
فقہ اور دوسرے متعلقات دین میں اس حد تک
مستند ہوا ہے کہ جس سے وہی شخص
انکار کر سکتا ہے جس کی بصیرت زائل ہو چکی
ہو، اور تعصب نے اس کی آنکھوں کو بند کردیا ہو۔جو تفاوت ثری او ثریا میں ہے
او خالص شراب اور کھولتے پانی میں ،وہی فرق خانوادہ ولی اللہ اور اس خاندان معقولی
میں ہے۔اور جسے چاہے خاص کر دے"۔
مجاہد اعظم ابوالعلا
مولانا فضل حق خیر آبادی
شیخ محسن ترہتی صاحب الیانع الجنی لکھتے ہیں:
" میں نے شیخ اجل ابوالعلا مولانا فضل حق خیرآبادی
عمری سے سنا ، جب ہم "الور" شہر میں تھے۔ ان کے ہاتھ میں کتاب " ازالۃ الخفاء "کا نسخہ تھا۔ وہ بہت
زیادہ توجہ کے ساتھ اس کتاب کو پڑھا کرتے اور بار بار اس کا مطالعہ کرتے تھے۔جب اس
کتاب سے فارغ ہوئے اور اس کا تمام پہلوؤں کا مطالعہ کر لیا اور اس کی بہت سی نئی
باتوں سے واقف ہوئے تو انہوں نے لوگوں کے ایک بہت بڑے اجتماع میں، جس میں ، میں
خود بھی موجود تھا فرمایا:
" بے شک جس آدمی نے یہ کتاب لکھی ہے ، وہ علم کا موجیں
مارتا ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے"۔(5)
شیخ مظہر جان جاناں علوی دہلوی
شیخ نعیم اللہ بہرائچی جو کہ شیخ اجل ، فقیہ محدث ،عارف
کامل ،شیخ مظہر جان جاناں علوی دہلوی کے
تربیت یافتہ عالم ہیں، وہ اپنے شیخ موصوف کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
" وہ اکثر
امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے بلند مرتبہ ایسے فضائل و کمالات بیان کیا کرتے
تھے کہ جن کا تذکرہ اس مقام پر
( عام لوگوں کے سامنے ) نہیں کیا جا سکتا۔"
ایسے ہی شیخ غلام
علی دہلوی جو کہ مظہر جان جاناں دہلوی کے
جانشین اور اہم ترین خلفاء میں تھے وہ اپنے
شیخ موصوف کے حوالے سے بیان کرتے
ہیں کہ آپ شاہ صاحب کے بارے کہا کرتے تھے:
"شیخ ابوالعزیز
( شاہ ولی اللہ ) بڑے محدث ہیں،
جنہوں نے ایک تجدیدی طریقہ کار اپنایا ہے۔نیز مشکل علوم و
معارف کے اسرار کی تحقیق میں ایک خاص طرز اپنایا ہے۔ وہ علماء میں سے ایک
ربانی عالم تھے۔ وہ ایسے صوفیا محققین میں سے ہیں کہ جنہوں نے علم ظاہر اور علم
باطن کو جمع کیا، اور نئے علوم کی تحقیق و تدوین کی ہے۔ شاید کہ ان جیسا آدمی
سوائے گنتی کے چند ایک افراد کے کوئی اور نہ پایا جاتا ہو۔ واللہ اعلم ۔"(6)
شیخ نعیم اللہ بہرائچی
خلیفہ شیخ مظہر جان جاناں دہلوی
" انہ قدس اللہ سرہ، کان من اکابر العلماء ، جامعا بین
العلوم الظاھرۃ والباطنۃ" (7)
" اللہ تبارک و تعالیٰ نے امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی
روح کو مقدس بنایا ہے۔ آپ اکابر اولیاء اللہ میں سے تھے، اور علوم ظاہری اور باطنی کے جامع تھے۔"
مجاہد جنگ آزادی مفتی عنایت اللہ کاکوروی:
" ان الشیخ ولی اللہ مثلہ کمثل شجرۃ طوبیٰ اصلھا فی
بیتہ و فرعھا فی کل بیت من البیوت المسلمین ، فما من بیت ولا مکان من بیوت
المسلمین وامکنتھم الا و فیہ فرع من تلک الشجرۃ لا یعرف غالب الناس این
اصلھا"۔(8)
" شاہ صاحب ایک ایسا شجر طوبیٰ ہیں جس کی جڑیں
تو اپنی جگہ قائم ہیں ، اور اس کی شاخیں تمام مسلمانوں کے گھروں تک پھیلی
ہوئی ہیں۔مسلمانوں کا کوئی ٹھکانہ ایسا نہیں
جہاں اس درخت کی شاخیں سایہ فگن نہ
ہوں۔ اس کے باوجود اکثر لوگ بے خبر ہیں کہ
اس درخت کی جڑیں کہاں ہیں"۔
مؤرخ الہند مولانا عبدالحی لکھنوی صاحب نزہۃ الخواطر
" انہ خصہ
بعلوم لم یشرک معہ فیھا غیرہ والتی اشرک فیھا معہ غیرہ من سائرۃ الآئمۃ کثیرۃ لا
یخصیھا البیان" (9)
" اللہ تعالی نے آپ کو بہت سے ایسے علوم سے نوازا تھا
جن میں دوسروں کو شریک ہی نہیں فرمایا اور جن علوم میں آپ کے ساتھ دوسرے آئمہ کو
شریک فرمایا وہ بھی تعداد میں بہت ہیں ان کا شمار نہیں ہوسکتا"۔
مولانا شبلی نعمانی
" ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود انہی کے زمانہ میں مسلمانوں میں جو عقلی
تنزل شروع ہوا ، اس کے لحاظ سے یہ امید نہیں رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل و دماغ
پیدا ہوگا۔لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھلانا تھا کہ اخیر زمانہ
میں جب کہ اسلام کا نفس پسیں تھا، شاہ ولی
اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں
کے آگے غزالی ، رازی ، ابن رشد کے کارنامے
ماند پڑ گئے۔"(68)
مولانا سید حسین احمد
مدنی ، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
" امام الملۃ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ العزیز کی
مقدس ہستی ان ممتاز ہستیوں میں سے ہے جن کے وجود باجود سے اللہ تعالٰی نے امت محمدیہ
( علی صاحبہا الصلوۃ والتحیہ ) کو دیگر امم پر امتیاز اور شرف بخشا ہے۔ منبع
الفیوض الربانیہ اور قاسم الحکم الازلیہ ،
آقائے نامدار حضرت خاتم النبیین علیہ وآلہ
وصحبہ الصلوۃ والسلام سے ایسی نسبت رکھنے والے اشخاص جیسی کہ آفتاب سے آئینہ کو ہے ملۃ مرحومہ میں بہت کم نظر آتے ہیں، حضرت شاہ صاحب موصوف انہیں میں سے ہیں۔ان کی اعلٰی تصانیف ، ان کے مضامین عالیہ ، ان کے اعلٰی
پایہ کے تلامیذ ، ان کے سلاسل علوم ظاہر یہ اور معارف باطنیہ کا علی مرالدہور جاری ہونا ان کے منتسبین کا تقوی
اور علم میں بے نظیر ماہرہونا بتلا رہا
ہےکہ یہ مقدس ہستی منظور نظر الٰہی اور
مخلصین عباد اور مجددین اُمّت میں خُصوصی
شان رکھنے والی تھی اور ہے۔ صرف ہندوستان کے مسلمانوں ہی پر ان کی ذات
بابرکات سے فیض یاب ہونے کا شرف مخصوص نہیں رہا
، بلکہ ان کے فیوض سے سید مرتضٰی
بلگرامی ثم الذبیدی ( شارح قاموس و شارح احیاء العلوم و صاحب عقود الجواہر المنیفہ وغیرہ ) حضرت
شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی ثم
المکی ، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب مجددی
دہلوی ثم المدنی وغیرہم رحمہم الہ تعالی حضرات نے
ملک عرب، مصر ، شام ، مغرب، اقصی وغیرہ کے مسلمانوں کو بھی بہت بڑے درجے تک مالا مال فرمایا۔ اس ہستی پر اہل
ہند جس قدر بھی ناز کریں بجا ہے، اور ان کے بحار فیض سے تشنگان معارف جس قدر بھی اپنی پیاس بجھائیں
مفید اور کار آمد ہے۔انہیں کے فیوض غیر متناہیہ
ہندوستان اور بیرون ہند کے
مسلمانوں کے لئے آج مشعل ہدایت اور رہنمائی طریقت ہیں ۔" (10)
مولانا عبد الماجد دریابادی
"
ہندوستان میں قرآن فہمی کا چرچا آج جو کچھ نظر آرہا ہے ، اور یہ اردو، انگریزی اور
دوسری زبانوں میں جو بیسیوں ترجمے شائع ہوچکے ہیں ، ہو رہے ہیں یا آئندہ شائع
ہونگے ۔ ان سب کے اجر کا جزو اعظم یقینا حضرت شاہ صاحب کے حسنات میں لکھا جائے گا۔
یہ سارے چراغ اسی چراغ سے روشن ہوئے ہیں۔ اگر اس کی ابتدا آپ اپنے ہاتھوں سے نہ کرتے تو نہ شاہ رفیع
الدین کا اردو ترجمہ وجود میں آتا، نہ شاہ عبدالقادر کا، اور متاخرین کا تو ذکر ہی
کیا۔جو شخص امت کے بے شمار نسلوں کے لئے اتنی بڑی رحمت کا دروازہ کھول گیا ، اس کے
اجر بے حساب کا حساب اور فرد بے نہایت کا
اندازہ ہی کون کر سکتا ہے"۔(11)
مفسر قرآن ،بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی ٰ
مودودی
" شاہ ولی اللہ نے اسلام کے پورے فکری ، اخلاقی ،
شرعی اور تمدنی نظام کو مرتب صورت میں پیش
کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ وہ کارنامہ ہے جس میں وہ اپنے تمام پیشروؤں سے بازی لے گئے
ہیں ۔ اگرچہ ابتدائی تین چار صدیوں میں کثرت سے ایسے آئمہ گزرے ہیں، جن کے کاموں
کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اسلام کے نظام حیات کا مکمل
تصور رکھتے ہیں اور اس طرح بعد کی صدیوں میں بھی ایسے محققین ملتے ہیں جن کے متعلق
یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس تصور
سے خالی تھے۔ یعنی ان میں کسی نے بھی جامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ اسلامی نظام کو بحیثیت ایک نظام کے مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں کی، یہ شرف صرف شاہ ولی اللہ ہی کے لئے
مقدر ہو چکا تھا۔ کہ اس راہ میں انہوں نے پیش قدمی کریں۔" (12)
ایک دوسری جگہ
مولانا مودودی لکھتے ہیں :
" پھر وہ نظام شریعت ، عبادت ، احکام اور قوانین کو
پیش کرتے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتیں سمجھائے چلے جاتے ہیں ۔ اس خاص مضمون میں
جو کام انہوں نے کیا ہے ، وہ اس نوعیت کا ہے
جو ان سے پہلے امام غزالی نے کیا تھا، اور قدرتی بات ہے کہ وہ اس راہ میں
امام موصوف سے آگے بڑھ گئے ہیں۔" (13)
سید احمد سعید کاظمی امروہی، مہتمم جامعہ انوار العلوم
،ملتان
"
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیائے
اسلام میں علم و عمل اور ظاہری و باطنی کمالات کے اعتبار سے مسلم ہے۔ان کے کسی ایک
کارنامے کو اگر موضوع قرار دیا جائے تو اس کی تفصیل کے لئے سینکڑوں صفحات بھی کافی
نہ ہونگے۔ حضرت شاہ صاحب علوم شریعت و طریقت کے جامع تھے۔ تمام علوم میں آپ کو ید
طولیٰ حاصل تھا۔دینی علوم بالخصوص علم حدیث سے آپ کو انتہائی شغف تھا، اور آپ کی
علمی خدمات علمی دنیا میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہوں سے ہمیشہ دیکھی جاتی رہیں
گی۔(14)
مولانا رحیم بخش دہلوی صاحب " حیات ولی"
"شاہ
صاحب کے علمی تبحر اور فضل وکمال کی جہاں تک سچی تعریف کی جائے وہ بہت کم ہے۔
کیونکہ اس محترم خاندان میں ایسے حضرات بہت کم گزرے ہیں ،جن میں وہ تمام کمالات
ہوتے جو تنہا آپ کی ذات والا صفات میں پائے جاتے
تھے۔جس شخص نے اپنے خاندان کے گذشتہ لوگوں کے اعزاز و اقتدار قائم رکھے
بلکہ ان پر ایک نئی جلا پیدا کر کے اور بھی چمکا دیا۔ جس نے اپنی آئندہ نسلوں کی
کامیابی کے لئے ایک ایسا بیج بویا جو بعد ازاں ان کی انتھک کوششوں سے پلا پھولا
اور لہلہایا۔ آپ کی خداداد قابلیت اور حسن
لیاقت کا اندازہ صرف اسی سے نہیں ہوسکتا کہ آپ خود بہت بڑے فاضل ،عالم ،خواص و عوام کے مقتدا و معتقد
علیہ تھے، اور عوام سے اجتہاد و امامت کا
معزز خطاب حاصل کر چکے تھے ، بلکہ اپنی اولاد
اور ملک و قوم کو عروج پر پہنچا
دیا تھا جو آج تک دونوں کو زندہ کئے ہوئے ہے"۔(15)
مولانا سید سلیمان ندوی
" شاہ صاحب کا وجود اس عہد میں اہل ہند کے لئے ایک
موہبت عظمیٰ اور عطیہ کبریٰ تھا۔ان کے
کارناموں کی تفصیل کے لئے ایک مستقل دفتر کی ضرورت ہے۔"(16)
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
"شاہ صاحب سے اللہ تعالی نے تجدید و اصلاح امت، دین کے
فہم صحیح کے احیاء علوم نبوت کی نشرواشاعت اور اپنے عہدو ملت کے فکروعمل میں ایک
نئی زندگی اور تازکی پیدا کرنے کا جو عظیم الشان کام لیا، اس کا دائرہ ایسا وسیع
اور اس کے شعبوں میں اتنا تنوع پایا جاتا ہے جس کی مثال معاصر ہی نہیں دور ماضی کے
علماء و مصنفین میں بھی کم نظر آتی ہے۔اس کی وجہ
( توفیق اور تقدیر الہی کے مامور ) اس عہد کے حالات کا تقاضا بھی ہوسکتا ہے
جو شاہ صاحب کے حصہ میں آیا۔ وہ جامعیت ، علوئے ہمت اور مخصوص تعلیم و تربیت بھی یہ شاہ صاحب کے خصائص میں سے ہے۔اس سب کا نتیجہ تھا کہ شاہ صاحب نے علم و عمل کے اتنے میدانوں میں تجدیدی و اصلاحی کارنامہ انجام دیا کہ ان کے سوانح نگار اور اسلام کی تاریخ دعوت و
عزیمت پر قلم اٹھانے والے کے لئے ان کا
احتوا ارو ان سب کا تفصیلی و تحویلی جائزہ لینا دشوار ہو گیا ہے۔اور جو اس کا
ارادہ کرے اس کی زبان بے اختیار فارسی کے اس مشہور شعر کے ساتھ شکوہ سنج ہوجاتی ہے
دامان نگہ تنگ و گل
حسن تو بسیار
گلچین بہار
تو زداماں گلہ دارد
" (17)
اہل حدیث محقق مولانا مسعود عالم ندوی بانی دارالعروبہ
الاسلامیہ پاکستان
" ان الامام الدھلوی من الرجال العباقرۃ الافذاذ الذین یسعون لیل نھار
لاحداث انقلاب فکری و تغییر فی عقول الناشئۃ والشبیبۃ و صقل اذھان الشیوخ لیرقی
بھم جمیعا الی المستوی الفکری المنشود الذی یمکنھم من النظر الی الاشیاء نظرۃ
الناقد المنصف النزیۃ غیر متاثر بما تملی علیہ بیئۃ و تدعوا الیہ من سفاسف القول و
منکرات الافعال" (18)
"امام موصوف ان عبقری اور یگانہ زمانہ لوگوں میں سے
تھے، جو رات و دن فکری انقلاب کے لئے
کوشاں رہتے ہیں۔نیز اس تگ و دو میں رہتے
ہیں کہ نو عمروں اور جوانوں کی عقلوں کو بدل سکیں اور عمردرازوں کے ذہن کو صیقل کر
سکیں۔ تاکہ ان سب کو بحث و فکر کے اس معیار تک لے جایا جا سکےکہ جہاں سے ان کے لئے
تمام اشیاء کو ایک منصف اور تعصب سے پاک ناقد کی نگاہوں سے دیکھنا اور پرکھنا ممکن
ہو اور وہ اپنے اس طریق و طرز عمل میں اپنے ماحول اور اس کے پیدا کردہ سطحی و جاہلانہ
اقوال نیز غلط افعال و اعمال سے متاثر نہ ہوں"۔
مشہور مؤرخ ،شیخ محمد اکرام
"
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم شاہ صاحب کو محض اپنی کم ہمتی اور تقلید پسندی سے امام
نہیں کہتے، ورنہ جہاں تک علمی تبحر ، دماغی قابلیت ، مجتہدانہ نظر، سلیم الخیالی
اور اشاعت کتاب و سنت کے سلسلہ میں عظیم
الشان قومی اور مذہبی خدمات کا تعلق ہے ، دنیا ئے اسلام میں بہت ہی کم بزرگ ہوں گے جن سے آپ پیچھے رہے
ہیں۔آپ نے بیسیوں کتابیں لکھیں، تفسیر ،
حدیث، تصوف ، فقہ ، تاریخ، علم الکلام ،غرضیکہ علوم اسلامی کی کوئی شاخ ایسی نہیں
، جسے آپ نے سیراب نہ کیا ہو، اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایسا شامل حال تھا کہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے
کندن ہو جاتی"۔(19)
معروف اسلامی سکالر ،ڈاکٹر اسرار احمد صاحب
" دور صحابہ کے بعد کی پوری اسلامی تاریخ میں ان کی سی
جامعیت کبرٰی کی حامل کوئی دوسری شخصیت نظر نہیں آتی ، اور اس میں ہرگز کسی شک و
شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ واقعۃَ دورِ جدید کے فاتح ہیں، اور اس اعتبار سے
خواہ یہ کہہ لیا جائے کہ انہوں نے حضرت
مجدد اور شیخ محدث دونوں کی مساعی کو منطقی انتہا تک
پہنچایا، خواہ یہ کہہ لیا جائے کہ وہ دونوں اصلا
امام الہند ہی کی شخصیت کی تمہید تھے
، کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔(20)
حوالہ جات:
(1) الیانع الجنی ،ص:154۔
(2) الیانع الجنی ،ص:169۔
(3) قنوجی،نواب صدیق حسن خان، اتحاف النبلاء(،طبع
نظامی،کانپور،1288ھ)ص:30۔
(4) قنوجی،نواب صدیق حسن خان، ابجد العلوم(دارالکتب
العلمیہ، بیروت،س۔ن)3/243
(5) الیانع الجنی ،ص:169۔
(6) ایضا
،ص:169۔
(7) ایضا
،ص:168۔
(8) نزہۃ الخواطر
، 6/862۔
(9) ایضا،6/859۔
(10) علم الکلام، 1/109۔
(11) مدنی، سید حسین احمد،مولانا، الفرقان ( شاہ
ولی اللہ نمبر ) ( الفرقان بریلی،یو ـ پی۔1359ھ ) ص:12۔
(12) دریابادی،عبدالماجد،مولانا،الفرقان شاہ ولی
اللہ نمبر(مکتبہ الفرقان،بریلی،1359ھ) ص:13۔
(13) مودودی،سید ابوالاعلی، تجدید و احیائے دین
( اسلامک پبلیکیشنز ،لاہور 1999ء) ص:
110۔
(14) تجدید و احیائے دین ،ص:91 ۔
(15) کاظمی، سید احمد سعید، مقالات کاظمی ( انوار
العلوم، ملتان،2016) 4/286۔
(16) دہلوی، رحیم بخش، مولانا، حیات ولی(افضل المطابع،دھلی)
ص:209۔
(17) ندوی،سید سلیمان،مولانا، مقالات سلیمان ( نیشنل
بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد ، 1989ء)2/42۔
(18) ندوی،سیدابوالحسن علی،مولانا، تاریخ دعوت و
عزیمت( مجلس نشرواشاعت،کراچی ،س ن ) 5/130۔
(19) ندوی،مسعود
عالم،تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ فی الہند(دارالعربیۃ،بیروت،س۔ن)ص:139۔
(20) رود کوثر، ص: 551۔
(21) اسرار احمد،
ڈاکٹر، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس
منظر(انجمن خدام القرآن،لاہور،1990ء)ص: 99۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔